اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مبینہ مغوی لڑکیاں سرکاری تحویل میں



اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نےسندھ سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی لڑکیوں کی درخواست پر سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کردیاہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سات صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیاہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ نومسلم نادیہ اور آسیہ نے پسند کی شادی کے بعد اپنے شوہروں کے ہمراہ تحفظ کی درخواست دائر کی۔ دو بہنوں کے قبول اسلام نے سندھ میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے تنازعے کو جنم دیا۔ پاکستان کی ساڑھے تین فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ دونوں لڑکیوں کو شہید بے نظیر بھٹو ویمن کرائسز سنٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی جی ہیومن رائٹس کی نگرانی میں لڑکیوں کو ویمن کرائسز سنٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی ۔
عدالتی فیصلے  کے مطابق  مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو لڑکیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی۔ مجسٹریٹ سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔

عدالت نے ایس پی سمیرا کو لڑکیوں کی سیکورٹی کے معاملات دیکھنے کی ہدایت کی اور شیریں مزاری سمیت چار شخصیات کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ خاور ممتاز، ڈاکٹر مہدی حسن اور آئی اے رحمان بھی عدالتی  ہونگے۔

عدالت نے ڈی جی انسانی حقوق حسن منگی کو لڑکیوں کی حفاظت کے انتظامات کو یقینی بنانے کا حکم دیا۔ سیکرٹری داخلہ کو وزیراعظم کی حکم کردہ انکوائری جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی ۔

عدالت نے لکھا کہ انکوائری رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل عدالت میں جمع کرائی جائے۔ چیف سیکرٹری سندھ آئندہ سماعت سے قبل رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ لڑکیوں کے طبی معائنہ کے لیے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز کو لیڈی ڈاکٹر مقرر کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ۔

دونوں لڑکیوں کی طرف سے دائر تحفظ فراہمی کی درخواست پر آج سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ سماعت کی۔

وکیل درخواست گزارن عمیر بلوچ ایڈوکیٹ نے عدالت میں مؤقف اپنایا تھا کہ میرے موکل نے قانون کے مطابق اسلام قبول کیا،  میڈیا میں دونوں بہنوں کے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا،20 مارچ کو دونوں بہنوں کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا تھا، تھانہ گھوٹکی میں لڑکیوں کے بھائی کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔

وکیل درخواست گزاران نے استدعا کی کہ دونوں لڑکیوں کی حفاظت یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کچھ قوتیں پاکستان کے امیج کو خراب کرنا چاہتی ہیں، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق دیگر ممالک سے زیادہ ہیں۔

معزز جج نے حکم دیا کہ ڈی سی صاحب، حتمی رپورٹ جمع ہونے تک یہ آپ کے مہمان ہونگے، لڑکیوں کو شیلٹر ہوم منتقل کر دیا جائے، وفاقی حکومت ان کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ڈسٹرکٹ سیشن جج اس معاملے پر گارڈین جج مقرر کریں، ایس پی لیول کی افسر لڑکیوں کے ساتھ رکھی جائے، دونوں بہنوں کے شوہر اسلام آباد انتظامیہ کے مہمان ہونگے۔

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو بھی دیکھنا ہے، اقلیتوں کے حوالے سے خطبہ حج الوداع موجود ہے۔

وکیل درخواست گزاران نے استدعا کی کہ عدالت لڑکیوں کو سندھ نہ بھیجنے کا حکم دے، ہمیں ڈر ہے کہ لڑکیوں کا کاروکاری نہ کردیا جائے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایسی صورتحال کے پیش نظر ہی نہ بھیجنے کا کہا، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی اجازت کے بغیر لڑکیاں اسلام آباد سے باہر نہیں جاسکتیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت دواپریل تک ملتوی کردی۔

لڑکیوں کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت داخلہ ، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ ، آئی جی پولیس پنجاب فریق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: مبینہ مغوی لڑکیوں کے نابالغ ہونےکا انکشاف

سندھ سے مبینہ گمشدہ ہندو لڑکیوں کا قبول اسلام کے بعد نکاح

درخواست گزار نے آئی جی سندھ ،آئی جی اسلام آباد، پیمرا، ارکان قومی اسمبلی رمیش کمار اور ہری لال کو بھی فریق بنایا ہے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ دونوں بہنوں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، تحفظ فراہم کیا جائے۔

سندھ کے ضلع ڈہرکی سے مبینہ طورپر اغوا ہونے والی لڑکیوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پسند کی شادی کا وڈیو بیان دیا تھا۔

مسلمان ہونے والی روینا کا نام آسیہ بی بی رینا کا شازیہ رکھا گیا ہے۔ روینا کا نکاح صفدر جبکہ رینا کا برکت سے ہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی لڑکیوں کےمبینہ اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کی ہدایت کر رکھی ہے۔


متعلقہ خبریں