سندھ: 70 سے زائد اساتذہ کی بھرتی غیر قانونی قرار

سندھ: 70 سے زائد اساتذہ کی بھرتی غیر قانونی قرار

فائل فوٹو


کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ کے محکمہ تعلیم میں 70 سے زائد اساتذہ کی بھرتیاں غیر قانونی قرار دے دی ہیں۔ استاتذہ کو فزیکل ٹریننگ، ڈرائینگ اور دیگر شعبوں میں بھرتی کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں معاملے کی سماعت ہوئی۔ جسٹس گلزار احمد بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اساتذہ کی بھرتیوں کا پورا عمل ہی غیر قانونی ہے۔

اساتذہ کے وکیل مجیب پیرزادہ نے مؤقف اپنایا کہ بھرتیوں کا یہ طریقہ کار تو پورے سندھ میں ہوا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب وہ معاملات سامنے آئیں گے تو انہیں بھی قانون کے مطابق پرکھیں گے۔

مجیب پیر زادہ نے دلائل میں کہا کہ اسلام میں پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دینے کا حکم ہے۔ جسٹس گلزار احد نے ریمارکس دیے کہ اسلام میں مزدور کو رکھنے کا بھی طریقہ کار موجود ہے، بھرتی کمیٹی نے انٹرویوز کیے نہ ٹیسٹ لیا اور اساتذہ بھرتی ہو گئے، اساتذہ کو بھرتی کرنے کا پورا عمل ہی بد نیتی پر مبنی تھا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ غلام سرور خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی سرود ٹربیونل ان اساتذہ کی بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دے چکا ہے، اساتذہ کی بھرتیاں جعلی دستاویزات پر کی گئیں اور وزیراعلیٰ سندھ ان اساتذہ کی بھرتیوں سے متعلق نوٹیفیکیشن بھی واپس لے چکے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کا معاملہ

دوسری طرف سندھ ہائی کورٹ میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال اور دیگر کی درخواست ضمانت پر بھی سماعت ہوئی۔

قومی احتساب بیورو(نیب) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر ظفر اقبال نے غیر قانونی طور پر احمد علی ملازمت پر رکھا، احمد علی نے یونیورسٹی میں تعمیراتی ٹھیکے اپنی بہن ہما ساجد کو دے دیے۔

ڈاکٹر ظفراقبال کے وکیل عامر نقوی ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ میرے مؤکل پر الزامات بے بنیاد ہیں۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا کہنا ہے ڈاکٹر ظفراقبال دور حاضر کے سرسید احمد خان ہیں؟ قائداعظم نے ملک ایسے لوگوں کے لیے نہیں بنایا تھا، قائد اعظم نے ملک کسی اور مقصد کے لیے بنایا تھا، ٹھیکوں کے اشتہارات قومی اخبارات میں بھی شائع نہیں کیے گئے۔

وکیل ظفر اقبال نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی میں تقرریاں ایمرجنسی کی صورت میں کی گئیں، جو بھی اپروول دی جاتی وہ سینیٹ کے زریعے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے تقرریاں کی گئیں بعد میں سینیٹ سے اپروول لی گئی، ہمارے کمزور کانوں نے تو یہی سنا ہے۔

ذاکر لغاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ سابق رجسٹرار وفاقی اردو یونیورسٹی محمد علی پر صرف تںنخواہ وصول کرنے کا الزام ہے، ملزم کو کینسرکا مرض لاحق ہے۔

معزز جج نے ریمارکس دیے کہ یونیورسٹی میں ان کی تقرری کو غیر قانونی طور پر ہوئی ہے، ہمیں سب کی بیماریوں کا علم ہے، اگر طبی بنیادوں پر ضمانت لینی ہے تو دوسری درخواست دائر کریں۔

نیب نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی کی سیکیورٹی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر سردار سیکیورٹی کو دیا گیا، سیکیورٹی کمپنی نے ملزم اظہر علی کو رشوت کے طور پر 40 لاکھ روپے دے۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ حال ہے ہمارے قومی ادارے کا؟ جس ملک کے قومی ادارے بیٹھ جائیں وہ قوم بیٹھ جاتی ہے، جس جس نے بھی ملک کو لوٹا ان کو پیسا واپس کرنا ہوگا۔

وکیل اظہرعلی نے عدالت کو بتایا کہ ملزم چالیس لاکھ روپے واپس دینے کے لیے تیار ہے، معزز جج نے کہا کہ پہلے چیک جمع کرائیں باقی باتیں بعد میں سنیں گے۔

عدالت نے 9 اپریل کو مزید ملزمان کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ہیں۔


متعلقہ خبریں