سیاسی و عسکری قیادت کا ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر تبادلہ خیال

وزیر اعظم نے اعلیٰ سطح کی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی سیاحت تشکیل دے دی

فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکت کی۔

وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر، وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی اور سیکریٹری داخلہ بھی اجلاس میں شریک تھے۔

اس کے علاوہ اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود اور سینیئر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سیکیورٹی امور سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی پر پیشرفت پر بھی غور کیا گیا۔

اجلاس کے دوران سیکریٹری خارجہ نے افغان امن مذاکرات کے معاملے پر بریفنگ دی جبکہ بھارتی اشتعال انگیزی کے بعد کی صورت حال پر بھی بات ہوئی۔

ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے، وہاں امن سے پورے خطے کا امن جڑا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لئے مخلصانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے برطانوی جریدے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کا کالعدم تنظیم جیش محمد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ سرزمین پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کوئی جگہ نہیں، پاکستان میں ان کے خلاف آج جو کچھ ہو رہا ہےاس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہے گا، نئے پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پلوامہ حملہ مودی کی مسلم مخالف حکومت اور مقبوضہ کشمیر میں ان کی سخت پالیسیوں کا نتیجہ ہے، پلوامہ واقعہ مودی حکومت نے جنگی جنون پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

ادھر دفتر خارجہ نے وزیر اعظم کے افغانستان سے متعلق بیان پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا بیان پڑوسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہ سمجھا جائے۔

دفتر خارجہ نے وزیر اعظم کے افغانستان سے متعلق بیان اور افغان رد عمل کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ان کا بیان غلط انداز میں لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا اشارہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات سے متعلق تھا۔ پاکستان کا افغانستان میں سوائے امن کے کوئی اور مفاد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستان کے نظام کا حوالہ دیا تھا کیونکہ پاکستان میں نگراں حکومت کے تحت ہی انتخابات ہوتے ہیں۔ عمران خان کے بیان کو افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت نہ سمجھا جائے ۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو ایف اے ٹی ایف کا گروپ مذاکرات کے لیے پاکستان پہنچا تھا۔


متعلقہ خبریں