54 افراد سے تفتیش کی، پلوامہ حملہ کا الزام ثابت نہیں ہوا، دفتر خارجہ


اسلام آباد: پاکستان نے پلوامہ واقعہ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھارت کے حوالے کرنے کے بعد سفارت کاروں کو بریفنگ بھی دی۔

سفارتکاروں کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے 27 فروری کو حملے کے حوالے سے شواہد دیے گئے تھے اوربھارت کی جانب سے دستاویزات ملنے کے فوراً بعد پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور کئی افراد کو حراست میں لیا۔

پاکستان نے نہ صرف تکنیکی معاملات کو دیکھا بلکہ سوشل میڈیا پر معلومات کا بھی جائزہ لیا۔ فراہم کیے گئے 6 حصوں میں تقسیم بھارتی دستاویزات 91 پیپر پر مشتمل تھے جب کہ دستاویزات کا پارٹ 2 اور پارٹ 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ دستاویزات کے دیگر حصہ عام الزامات سے متعلق تھے تاہم پاکستان نے پلوامہ حملے سے متعلق معلومات کو فوکس کیا اور تحقیقات کے دوران معاملے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا۔

سفاتکاروں کو آگاہ کیا گیا کہ عادل ڈار کے اعترافی ویڈیو بیان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جب کہ واٹس ایپ نمبر، ٹیلیگرام نمبر، ویڈیو میسجز، فن لوکیشن اور کالعدم تنظیموں کے کیمپس کے حوالے سے بھی تحقیقات کی گئی ہیں۔ فراہم کیے گئے تمام متعلقہ نمبرز پر سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں سے بھی تفصیلات طلب کیں۔

یہ بھی پڑھیں پلوامہ حملہ: پاکستان نے بھارتی ڈوزیئر کا ابتدائی جواب بھجوادیا

پلوامہ حملہ کی تحقیقات میں واٹس ایپ میسج کے حوالے سے امریکی حکومت سے بھی رابطہ کیا گیا

تحقیقات کے دوران 54 افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی تاہم ابھی تک ان کا پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت نے جن 22 مقامات کی نشاند ہی کی تھی ان کا بھی معائنہ کیا جا چکا ہے اور ان 22 مقامات پر کسی بھی قسم کے کیمپ کا وجود نہیں ہے جب کہ اگر پاکستان سے درخواست کی گئی تو وہ ان مقامات کا دورہ بھی کرا سکتا ہے۔

پلوامہ واقعہ کے حوالے سے مزید تحقیقات کے لیے بھارت سے مزید معلومات اور دستاویزات کی ضرورت ہے۔ پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔

سفارتکاروں کو دی گئی بریفنگ کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان، سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری داخلہ، ڈی جی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بھی موجود تھے۔


متعلقہ خبریں