الیکشن کمیشن ممبرز کی تعیناتی،اپوزیشن لیڈر کا وزیراعظم کو ایک اور خط



اسلام آباد:الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کے معاملے پر  وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں بذریعہ خط مشاورت کا سلسلہ طول پکڑ گیاہے۔

وزیراعظم کے یکم اپریل کو لکھئے گئے  خط کے جواب میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی ایک اور خط لکھ دیا ہے ۔

شہباز شریف نے اپنے خط میں وزیراعظم کی جانب سے آئین کے مختلف آرٹیکل کی خلاف ورزی کا حوالہ بھی  دیا ہے۔

شہباز شریف نے اپنی جانب سے بھی دونوں نشستوں کے لیے تین تین نام تجویز کر دیےہیں۔

الیکشن کمیشن میں بلوچستان کے ممبر کے لئے شاہ محمد خان جتوئی، چیف جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی اور محمد روف عطا ایڈووکیٹ کے نام تجویز کیے گئے ہیں۔

خط سندھ کے لئے جسٹس (ر) عبدالرسول میمن، خالد جاوید، جسٹس (ر) نور الحق قریشی کے نام شامل ہیں۔

خط کا صفحہ:شہباز شریف کی طرف سے وزیراعظم کو بھیجے گئے نام

شہباز شریف کا وزیراعظم کولکھیا گیا جوابی خط  7 صفحات پر مشتمل ہے ۔خط میں وزیر اعظم کی جانب سے سابقہ خطوط کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

یاد رہے 28مارچ کو الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی کے معاملہ پر حکومت کے خط کے جواب میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف  شہبازشریف کے آفس  نے وزیراعظم کے سیکریٹری کوجوابی خط  لکھاتھا۔

وزیراعظم کے سیکریٹری محمد اعظم خان کو قائد حزب اختلاف کے ڈائریکٹر محب علی پھل پوٹو نے خط ارسال کیا۔

اپوزیشن لیڈر آفس کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ وزیرخارجہ کے دفتر کا 11 مارچ کا خط آئین کی متعلقہ شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ آپ کا حالیہ خط بھی آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور آئینی آرٹیکلز کی روح کے مطابق نہیں  ہے۔

الیکشن کمشن کے ارکان کی تقرری کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت میں تاخیر آئین کے آرٹیکل 215 چار کی خلاف ورزی ہے۔

اپوزیشن لیڈر کے دفتر سے وزیراعظم آفس بھجوائے جانے والے خط میں آئین کے آرٹیکل 213 دو اے کا متن بھی تحریر کیا گیا ہے۔

’مشاورت کسی نامزد شخص کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اپوزیشن لیڈرکا موقف‘

اپوزیشن لیڈر آفس کے خط میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ مشاورت کسی نامزد شخص کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔

فہرست میں اب جو نام آپ نے بھجوائے ہیں، وہ شاہ محمود قریشی کے خط میں دئیے گئے مجوزہ ناموں سے مختلف ہیں۔ 2011ءکے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مشاورت کی حدودقیود طے ہیں، اس عدالتی فیصلے سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔

اس سے قبل حکومت نے قائد حزب اختلاف کو وزارت خارجہ کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعد پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم کی طرف سے ایک اور خط لکھا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی طرف سے سندھ اور بلوچستان کے لیے 3.3 ارکان کے نام بھیجے گئے ہیں۔ ن لیگ کا پارلیمانی مشاورتی گروپ خط میں دیئے گئے ناموں پر غور کرے گا۔

بلوچستان کے لیے سفارش کردہ ناموں میں امان اللہ بلوچ، منیر کاکڑ اور نوید جان بلوچ شامل ہیں۔ سندھ سے خالد محمود صدیقی ،فرخ ضیا شیخ اور اقبال محمود کے نام تجویزکیے گئے ہیں۔

وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی طرف سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو لکھا گیا خط

ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیر اعظم کے خط پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت خط براہ راست وزیر اعظم کی جانب سے لکھا جانا چاہئے۔ خط سیکریٹری وزیر اعظم کی جانب سے لکھا گیا ہے جو مشاورت کا حصہ نہیں بن سکتے ۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا اس سے قبل الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی کے لیے دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے خط لکھا تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نے پاکستان کی تاریخ میں کبھی اس معاملے کے لیے قائد حزب اختلاف کو خط نہیں لکھا۔حکومت کی طرف سے پہلے خط کے جواب میں شہباز شریف نے اسپیکر کو خط لکھا. خط میں شہباز شریف نے بتایا کے یہ  عمل آئین کیخلاف ہے .

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے اراکین کے نام بھیج دیئے

وزرات خارجہ کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کو لکھے گئے پہلے خط میں تین افراد کے نام سندھ اور تین کے نام بلوچستان سے بھیجے گئے۔  ان میں سے دو ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ایک ممبر سندھ اور دوسرا بلوچستان سے منتخب کیا جائےگا۔

حکومت کی طرف سے لکھا گیا قائد حزب اختلاف کوپہلا خط

حکومت کی جانب سے بلوچستان سے سابق اے جی بلوچستان ڈاکٹر صلاح الدین منگل، سابق ایڈیشنل اے جی بلوچستان محمد رضا خان اور سابق ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل قومی احتساب بیورو(نیب)  راجا عامر عباس کا نام دیا گیا ہے۔

اسی طرح سندھ سے محمد ندیم قریشی، سابق رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ مسٹرجسٹس عبدالرسول میمن اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس (ر) نورالحق قریشی کا نام دیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں