کشمیری دانشور بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور



مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا ہوگئی جس وجہ سے کشمیری دانشور بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔یہ انکشاف  امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے ۔ اخبار نے لکھا ہے کہ  انتہائی تعلیم یافتہ اساتذہ اورطلبہ  بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ 

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ 2013میں مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد صرف16تھی۔ 2017کےمقابلے میں مزاحمتی تحریک میں نوجوانوں کی شرکت2018میں52 فیصد بڑھی۔اخبار نے بھارتی فوج کے اہلکارکے حوالے سے لکھا کہ  2018میں191 کشمیری نوجوانوں نے مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیارکی۔2008کے بعد سےمزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ انتہائی تعلیم یافتہ اساتذہ بھی بھارت کےخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،2018 کے بعد سے کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

واشنگٹن پوسٹ کواجازت سرینگر تک محدود رہنے اور بھارت مخالف افراد سے نہ ملنےکی شرط پر ملی۔ بھارت نے پچھلے برس سےغیرملکی صحافیوں پر کشمیرمیں رپورٹنگ کی پابندی لگارکھی ہے ۔

’بھارت نے غیرملکی صحافیوں پر کشمیرمیں رپورٹنگ کی پابندی لگارکھی ہے‘

واشنگٹن پوسٹ نے عیسی فاضلی نامی انجینئر کی کہانی بیان کی ہے ۔ اخبارنے عیسی فاضلی کے والد  اسکول پرنسپل نعیم فاضلی کے حوالے سے لکھا کہ وہ اپنے بیٹے عیسی  کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

نعیم فاضلی بتاتے ہیں کہ دوہزار سولہ میں ایک نوجوان انجینئر کی شہادت کے بعد اسکے بیٹے کی زندگی بدل گئی تھی ۔ نعیم فاضلی نے کہا انجینئرنگ کی ڈگری نے اسے کیا دیا؟

اخبار لکھتا ہے کہ نعیم فاضلی نے اپنے دو بیٹوں کو سری نگر کے سب سے اچھے تعلیمی اداروں میں داخل کرایا ۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عیسی کو انجینئرنگ کے لیے جموں میں یونیورسٹی میں بھیجا گیا۔ایک دن جب 2017میں اسکا آخری سمسٹر تھا وہ یونیورسٹی سے غائب ہوگیا۔

نعیم فاضلی بتاتے ہیں ایک دن اس کے ہمسائے نے اس سے پوچھا انکل آپ فیس بُک کا استعمال جانتے ہیں؟ اس کے بعد اسکے ہمسائے  نے انہیں ایک پیج دکھایا اس پیج پر اس نے ایک فوٹو دیکھا جس میں  اس کا بیٹا اے کے فورٹی سیون رائفل کے ساتھ موجود تھا۔

نعیم فاضلی نے کہا یہ انکشاف  ان کے لیے ایک ناقابل یقین جھٹکے سے کم نہیں تھا ۔

انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا مارچ 2018میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوگیا۔

31برس کے پروفیسر رفیع نے یونیورسٹی آف کشمیرسے پی ایچ ڈی کی تھی‘

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں پروفیسر محمد رفیع بھٹ کا تذکرہ بھی کیا گیا  ہے۔ کہا گیا ہے کہ رفیع بھٹ ایسے استاد اور دانشور تھے جنہوں نے صارفین پر نمایاں تحقیق کی تھی۔31برس کے پروفیسر رفیع نے یونیورسٹی آف کشمیرسے پی ایچ ڈی کی تھی۔ 

اخبار کے مطابق یونیورسٹی آف کشمیر کے پروفیسر رفیع بھٹ اچانک لاپتہ ہوگئے تھے اور 2 روز بعد ان کی لاش ملی۔

اخبار کا کہنا ہے کہ پروفیسر رفیع بھٹ  نے بھارت کے خلاف تحریک میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور مبینہ مقابلے میں مارے گئے۔ 

پروفیسر کی درس و تدریس کے شعبے سے مزاحمتی تحریک میں شمولیت نئے رجحان کاپتہ دے رہی  ہے۔

مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے پروفیسر رفیع بھٹ کے سامنے شاندار مستقبل تھا مگر انہوں نے اپنے شاندار مستقبل کو نظر انداز کرتے ہوئے مزاحمتی تحریک میں شمولیت کو بہتر تصور کیا۔ 

یہ بھی پڑھیے:قابض بھارتی فوج نے سات کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا

رپورٹ کے مطابق 2008 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی  مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چند برس پہلے تک کمزور ہوتی جدوجہد میں نئی توانائی آگئی ہے۔ 

اخبار کے محقق کی رائے ہے کہ سوشل میڈیا کے سبب پڑھا لکھا طبقہ مزاحمتی تحریک میں زیادہ شامل ہورہا ہے۔
سینئر بھارتی اہلکار نے اعتراف کیا کہ نوجوانوں کامزاحمتی تحریک میں شامل ہونا پریشان کن ہے۔ کشمیری کہتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پرروزانہ تضحیک آمیزبھارتی رویہ اشتعال کی وجہ ہے۔ کشمیرمیں داخلی استحکام اورگورننس کویکسرنظرانداز کیا جارہا ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ہم نیوز سے گفتگو میں اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اساتذہ اور دانشوروں کی طرف سے مزاحمتی عمل میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کے لوگ کسی طور بھی بھارتی تسلط کے زیر اثر زندگی نہیں گزار نا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ واشنٹگن پوسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ بھی یہی ثابت کررہی ہےکہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی نئے موڑ میں داخل ہوچکی ہے۔

(لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا پورا تجزیہ سننے کے لیےاوپر وڈیو پر کلک کریں)


متعلقہ خبریں