جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر کی جنوبی پنجاب سے وابستہ حسین یادیں


اسلام آباد: پاکستان کے سفارتی اور سماجی حلقوں میں معروف و ہردلعزیزسمجھے اور جانے والے جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر نے جنوبی پنجاب کے دوروں کے دوران بنائی گئیں اپنی مختلاف وڈیوز کی مدد سے ایک چھوٹا سا ’کلپ‘ تیار کرکے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اس ’سرخی‘ کے ساتھ شیئر کیا کہ ’’جنوبی پنجاب کے دورے کی ایسی حسین یادیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی‘‘۔

’ہم نیوز‘ معزز سفیر مارٹن کوبلر کی حسین و دلکش یادوں کو اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرکے انہیں خراج تحسین پیش کررہا ہے۔

جنوبی پنجاب کے دورے میں جرمن سفیر نے لوک ورثہ کے تحت منعقدہ نمائش میں شرکت کی جہاں انہوں نے مہارت، نفاست اور خوبصورتی سے تیارکردہ ’بلیو پوٹری‘کے برتنوں کو دیکھا جو انہیں ازحد پسند آئے۔

انہوں نے نمائش سے متعدد بلیو پلیٹیں خریدیں جو انہوں نے یادگاری تحفے کے طور پر جرمنی سے آئے ہوئے اپنے مہمانان کو پیش کیں۔

جنوبی پنجاب کے قدیم وروایتی ثقافتی ورثے نے جرمنی کے سفیر کو بے حد متاثر کیا جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا۔

مارٹن کوبلر لودھراں کے قریب واقع ’منور سوہن حلوہ‘ کی دکان پر گئے جہاں انہوں نے پوری دلچسپی سے حلوے کی تیاری کے تمام مراحل کا نہ صرف بغور مشاہدہ کیا تھا بلکہ اس کی تیاری میں ہاتھ بٹانے کے بعد چکھ کر اسے نہایت لذیذ قرار دیا تھا۔

ازراہ تفنن ان کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہنا تھا کہ پہلے ہی افسردہ محسوس کر رہا ہوں کیونکہ جلد ہی ریٹائرمنٹ پر جا رہا ہوں۔ انہوں نے استفسار کیا تھا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیوں نہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد کسی متبادل پلان کی منصوبہ بندی کروں اور حلوے بنانے میں مدد کروں؟

جرمنی کے سفیر نے شکر(گڑ سے تیار کی جانے والی) کی تیاری کے مختلف مراحل کا ازخود جائزہ لینے کے لیے شاکر نامی شخص کے پیداواری یونٹ کا جائزہ لیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا تھا کہ پہلے کسان گنے کی فصل کاٹتے ہیں جس کے بعد گنے سے رس (رو) نکالا جاتا ہے جسے پکنے کے بعد ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک الگ لکڑی کے برتن میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

مارٹن کوبلر نے لکھا تھا کہ اس کے بعد اس کی کرشنگ کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ کھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔

جنوبی پنجاب کے دورے میں جرمن سفیر نے بہاولپور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے اسٹال کا دورہ کرکے اس کی کاوش کو سراہا تھا۔ وہ اپنائے گئے طریقہ کار سے کافی متاثر دکھائی دیے تھے۔

جنوبی پنجاب کے دورے میں انہوں نے چولستان کے صحرا میں واقع خوبصورت اور بہترین فن تعمیر کی شاہکار عباسی مسجد کو دیکھا تھا۔ وہ عباسی مسجد کے فن تعمیر اور اس کی عمارت میں استعمال کیے جانے والے سفید ماربل سے اس قدر متاثر تھے کہ اسے بادشاہی مسجد لاہور اور موتی مسجد دلی سے مشابہ بھی قرار دے رہے تھے۔

انہوں نے جنوبی پنجاب کی اس مشہور مسجد میں سیاحوں کے لیے نہایت کشش اور دلچسپی محسوس کرتے ہوئے ان کی توجہ کا بڑا مرکز بھی قرار دیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے فالورز کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائی تھیں۔

تجسس تھا کہ گنے کی پروسیسنگ کیا ہے اور شکر کہاں سے آتی ہے؛ تو جنوبی پنجاب کے وسط میں ایک جگہ رکا اور ‘شاکر کے پیداواری یونٹ’ پر ایک نظر ڈالی۔

 

مارٹن کوبلر اپنے دورہ ملتان میں خوبصورت آگاہی بازار بھی گئے تھے جو پرانے شہر میں واقع ہے۔ وہ وہاں کی رونق اور چہل پہل سے بے حد متاثر دکھائی دیے تھے۔

جرمن سفیر نے صوفی بزرگ کے مزار پہ حاضری دینے کے علاوہ وہاں رنگ برنگی ’چنیریاں‘ اور کڑھائی والے روایتی دوپٹے دیکھے تھے جو انہیں حسین و منفرد لگے تھے۔ انہوں نے چونکہ پی ایس ایل-4 کی ابتدا میں یہ دورہ کیا تھا اس لیے انہوں نے وہاں سے ایک ٹی شرٹ بھی خریدی تھی۔

پی ایس ایل – 4 کی کامیاب ٹیم کے حوالے سے بھی انہوں نے جو سنا تھا وہ بتایا تھا۔

مارٹن کوبلر نے ملتان کے دورے میں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ اسٹی ٹیوٹ کا بھی معائنہ کیا تھا جہاں انہوں نے طلبا و طالبات کو مختلف ہنر سیکھنے میں مصروف پا کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔

ملتان چیمبر آف کامرس کی جانب سے منعقدہ روایتی مصنوعات کی نمائش بھی ان کی دلچسپی کا سبب بنی تھی۔ ان کے خیال میں پاکستان کی روایتی مصنوعات کی برآمدات کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے اس کا اظہار اپنے ٹوئٹر پیغام میں کیا تھا۔

وہ یہاں کی تیار کردہ روایتی ’اجرک‘ پہن کر بے حد مسرور دکھائی دے رہے تھے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر انہوں نے اپنے دو لاکھ سے زائد موجود فالوورز سے استفسار کیا تھا کہ وہ کیسے لگ رہے ہیں؟

میں ملتان کے روایتی لباس کیسا لگ رہا ہوں؟ ملتان چیمبر آف کامرس میں بلیو پوٹری، کیمل لیمپ، جوتے اور ماربل جیسی مصنوعات کی خوبصورت نمائش۔ کاروباری خواتین کو دیکھ کر اچھا لگا۔ برآمدت کیلئے بھرپور صلاحیت ہے!

چولستان جیپ ریلی میں تو انہوں نے جھنڈی دکھا کر ریلی کا آغاز کیا تھا اور پی پی پی رہنما و سابق صوبائی وزیر میر نادرعلی مگسی سے بات چیت کی تھی جو پاکستان میں منعقد ہونے والی جیپ ریلیوں کے مشہور کھلاڑی تسلیم  کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر سیلفی بنائی تھی۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے جرمن سفیر کا خصوصی انٹرویو بھی کیا تھا۔

 

جرمن کنسلٹینسی کے ساتھ تعمیر ہونے والے بہاولپور پاور پلانٹ کی تعمیر کو بھی انہوں نے نہایت متاثر کن قرار دیا تھا۔

 

عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہوئے اعلی شان قلعہ دراوڑ کی تعمیر کو انہوں نے سراہا تھا اور زور دیا تھا کہ اس کی زبوں حالی پر فوری توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہ استفسار بھی کیا تھا کہ وہ اس کی بحالی میں کیا مدد کرسکتے ہیں؟

 

ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب، پاکستان کے زیراہتمام منعقدہ کلچرل نائٹ کو انہوں نے خوب انجوائے کیا اور مقامی سرائیکی گیت کے ساتھ ساتھ سندھی موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔

جرمن سفیر مارٹن کوبلر کے دل کوصحرا میں ہونے والی آتشبازی اور کیمپنگ بہت بھائی جس سے انہوں نے لطف اٹھایا۔

چولستان جیپ ریلی کو انہوں نے ملکی معیشت کے لیے بہترین قرار دیا تھا۔

ان کے خیال میں جیپ ریلی کے شرکا کا جذبہ قابل دید اور تقلید تھا۔ انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ آئندہ سال چولستان جیپ ریلی میں غیرملکی شرکا بھی شریک ہوں گے۔

چولستان جیپ ریلی کے حوالے سے وہ واقعی نہایت پرجوش تھے اور ان کا جذبہ بھی قابل دید تھا۔ اس کا اظہار ان کے ہر عمل سے ہورہا تھا۔

اس موقع پر وہ غیر ملکی سیاحوں کو یہ پیغام دینا نہیں بھولے تھے کہ پاکستان میں ان کے لیے بے پناہ قابل دید مقامات ہیں اور ملک غیر ملکیوں و سیاحوں کے لیے محفوظ ہے۔

جرمن سفیر مارٹن کوبلر کے اسی طرز عمل کی وجہ پاکستانی انہیں غیر ملکی نہیں اپنا ’سفیر‘ جانتے، مانتے اور کہتے ہیں۔

 

یقیناً ! سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ اپنی زندگی برلن میں فیملی کے ہمراہ گزارتے ہوئے پاکستانی ٹرک آرٹ سے مزین ویسپا پہ سفر کریں گے اور یا چنیوٹی فرنیچر پہ آرام کرتے ہوئے بیتے دنوں کے حوالے سے پاکستان کو یاد کریں گے تو اس وقت اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، ملتان، کراچی اور پشاور میں رہنے والے نجانے کتنے پاکستانی ہوں گے جنہیں وہ یاد آرہے ہوں گے کہ اپنی محبت کے انمٹ نقوش انہوں نے جگہ جگہ ثبت کیے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے۔


متعلقہ خبریں