چار سالوں میں شرح خواندگی 70 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں، شفقت محمود



اسلام آباد: وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ اگلے چار سالوں میں شرح خواندگی 70 فیصد تک لے جانا ہمارا ہدف ہے، مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں یہ شرح 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد پر آ گئی۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شرح خواندگی کو 70 فیصد تک لے جانے کے لیے چار سالوں میں ایک کروڑ 44 لاکھ بالغان کو تعلیم دینا ہو گی، اس کے لیے سات لاکھ تعلیمی سینٹرز اور تیس لاکھ استاد چاہئیں۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ایک فیصد شرح خواندگی بڑھانے کے لیے 12 لاکھ اضافی افراد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے غیرروایتی طریقے اختیار کرنا پڑیں گے کیونکہ روایتی ذرائع سے اتنی بڑی تعداد کو تعلیم دینے کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت موبائل فون اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیم کو فروغ دینے کا پروگرام تیار کر رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی 2.4 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے، خواندگی کو اس سے زیادہ شرح کے ساتھ بڑھنا چاہیئے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں وزارت تعلیم کو ختم کر دیا گیا تھا، بعد میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی شق 25 اے کے مطابق 5 سال سے 16 سال کے بچوں کو تعلیم دینا وفاق کی ذمہ داری ہے، اس فیصلے کے بعد یہ وزارت بحال کر دی گئی۔

یکساں نصاب تعلیم پر ان کی رائے تھی کہ اصولی طور پر پاکستان میں سب کو ایک جیسا نصاب پڑھنا چاہیئے لیکن اس کے بہت سے پہلوؤں پر غور کرنا پڑے گا، مثلاً نصاب کے لیے زبان کونسی استعمال ہو گی، اسلامیات میں کونسے مضامین شامل ہوں گے، تاریخ کب سے پڑھانی شروع کرنی ہے۔

شفقت محمود کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ مدرسے کا بچہ بھی وہی نصاب پڑھے جو بیکن ہاؤس کا بچہ پڑھ رہا ہے۔ یہ یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کا نفاذ تدریجی انداز میں کرنا ہو گا، شروع میں پرائمری کے بچوں کو یہ نصاب پڑھایا جائے گا بعد ازاں اسے اگلے درجوں پر پھیلا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان میں تعلیم کی حالت اچھی نہیں ہے۔ 72 سال بعد بھی ہماری شرح خواندگی 58 فیصد ہے۔ ہمارے سوا دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں، تعلیم کا معیار بہت خراب ہے۔

وفاقی وزیرتعلیم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں جب بچے آٹھویں یا نویں جماعت میں پہنچیں تو انہیں کوئی ہنر بھی سکھایا جائے تاکہ وہ ساتھ ساتھ کام بھی کر سکیں۔

مدرسہ اصلاحات کے حوالے سے ان کی رائے تھی کہ یہ فقط اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے، مولانا فضل الرحمان کی جماعت اس کوشش میں ہے کہ کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کیا جائے لیکن وفاق المدارس کے لوگوں کی سوچ مثبت ہے۔

پرائیویٹ اسکولز کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ جب پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہیں اپنے بچوں کی معیاری تعلیم کے لیے اسکولوں کی تلاش شروع کی، حکومتوں نے ایسے اسکول نہیں بنائے چنانچہ وہ پرائیویٹ اسکولز کی طرف گئے۔

اے لیول اور او لیول کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ جب تک بہتر نظام نہیں لایا جاتا اس وقت تک یہ نظام جاری رہے گا۔


متعلقہ خبریں