2مئی تک مشرف پیش نہ ہو تو ٹرائل کورٹ فیصلہ سنا دے، سپریم کورٹ



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 2 مئی کو پرویز مشرف کے پیش نہ ہونے پر ٹرائل کورٹ کو فیصلہ سنانے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو حکم دیا کہ اگر 2 مئی کو ملزم پیش ہو جائے تو اس کو قانونی حقوق حاصل ہوں گے جب کہ پرویز مشرف پیش نہ ہونے کی صورت میں اپنے دفاع کے تمام حقوق ختم کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ان درخواستوں کو زیرالتواء رکھتے ہیں اور 2 مئی کے بعد ان درخواستوں پر سماعت کریں گے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا ہے کہ میرا مؤکل پاکستان آکر اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتا ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں سنگین غداری کیس کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ میرا مؤکل پاکستان آ کر خود اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتا ہے لیکن ان کی صحت کے مسائل سامنے آ رہے ہیں کیونکہ وہ کیمو تھراپی کراتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ کے آخری حکم کے مطابق سماعت 2 مئی کو ہونی ہے اور تحریری حکم کے مطابق 2 مئی تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست مشرف کے وکیل نے ہی کی تھی۔

پرویز مشرف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سنگین غداری کیس جس قانون کے تحت چل رہا ہے اس کا سیکشن 9 بہت اہم ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سیکشن 9 سے متعلق کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ سیکشن 9 ان حالات میں قابل استعمال ہے یا نہیں۔ ہمارے قانون سازوں نے بھی کچھ سوچ کر ہی سنگین غداری کیس کی شق 9 پر کام کیا تھا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزاروں کا اب کوئی کام نہیں رہا، وہ جو چاہتے تھے کہ غداری کیس پر ٹرائل شروع ہو وہ شروع ہو چکا ہے۔

سنگین غداری کیس کا ٹرائل مشرف کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے, پراسیکیوٹر نیئر الدین نیئر

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سابق صدر نے پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے ؟

پرویز مشرف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میں ذاتی ضمانت نہیں دے سکتا تاہم پرویز مشرف کی ہداہات ہیں کہ وہ پاکستان آ کر اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جب کہ ٹرائل کورٹ کے اکثر فیصلوں کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا تاہم اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ملزم کی غیر حاضری میں کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے یا نہیں۔ کیس کو آگے بڑھانے سے متعلق فیصلہ آدھے گھنٹے بعد دیتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں ملزمان پیش ہوتے رہے ہیں لیکن اس کیس میں وفاقی حکومت نے اپنا راستہ خود بند کیا جب کہ اس وقت ہم کیس کا ٹرائل نہیں کر رہے ہیں۔ اس کیس میں ہمارا پہلا حکم اب بھی زندہ ہے۔


متعلقہ خبریں