مسلمان لڑکوں سے شادی کرنیوالی ہندو لڑکیوں کی عمر 18 اور 19 سال ہے ،رپورٹ

عدالت نے مفتی تقی عثمانی کو بھی کمیشن کا حصہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ کو طلب کر لیا۔

گھوٹکی کی نو مسلم لڑکیاں، عمریں ساڑھے 19 اور 18 سال نکلیں

فوٹو: فائل


اسلام آباد: گھوٹکی میں مسلمان لڑکوں سے شادی کرنیوالی ہندو لڑکیوں کی عمریں ساڑھے 19 اور 18 سال ہے۔ لڑکیوں کی میڈیکل رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے ، رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کی عمریں ساڑھے 19 سال اور 18 سال نکلیں۔ سینیٹر کرشنا کماری نے میڈیکل رپورٹس پر اعتراض کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں کم عمر ہندو لڑکیوں  کی حفاظت سے متعلق درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔

اس سے قبل لڑکیوں کی عمر کے تعین کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی میڈیکل رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی۔ میڈیکل رپورٹ ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر ثانیہ کی جانب سے مرتب کی گئی تھی۔

میڈیکل رپورٹ کے مطابق مبینہ  نو مسلم آسیہ کی عمر ساڑھے 19 سال جب کہ مبینہ نو مسلم لڑکی نادیہ کی عمر 18 سال ہے جب کہ عمر کے مزید تعین کے لیے ڈینیل اور کلینیکل چیک اپ کرانے کی تجویز بھی دی گئی۔

لڑکیوں کے والدین سینیٹر کرشنا کماری کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچیں۔ کرشنا کماری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں میڈیکل رپورٹ پر اعتراض ہے، میڈیکل رپورٹس کراتے وقت ہمیں بتایا گیا نہ اعتماد میں لیا گیا۔ میڈیکل رپورٹس کس نے کرائیں ہمیں علم نہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ اور چیف سیکرٹری سندھ کہاں ہیں ؟ یہ واقعات صرف گھوٹکی میں ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتے تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی، اگر حکومت اس معاملے کو اہم سمجھتی تو سیکرٹری داخلہ یہاں ہوتے جب کہ وزیر اعظم کے حکم پر ہونے والی انکوائری کی رپورٹ کہاں ہے ؟

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق دونوں لڑکیاں  بالغ ہیں، اور انہوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا اور شادی کی۔ اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں لیکن مذہب بدلنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو تاثر اس ایک ضلع سے متعلق بنایا گیا ہے عدالت اسے تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ دونوں لڑکیوں کو ان کی مرضی کے خلاف دارالامان میں نہیں رکھا جا سکتا جب کہ لڑکیوں کے والدین کے وکیل نے کہا کہ ہم نے لڑکیوں کی عمریں معلوم کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دی ہے۔

عدالت نے ڈاکٹر رمیش کمار سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں معاملہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا گیا ؟ آپ کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ؟

ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ تحریک انصاف سے ہیں اور قومی اسمبلی میں معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ کیس میں فریق کے لیے میرا نام دیا گیا ہے کہ انہیں مجھ سے خطرہ ہے حالانکہ مجھے اُن سے خطرہ ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ایک کمیشن بناتے ہیں وہ انکوائری کرے اور رپورٹ دے، وفاقی حکومت نے انکوائری کا حکم دیا لیکن عدالت میں پیش ان کے نمائندہ کو معلوم ہی نہیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ 164 کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے ایک رپورٹ موصول ہو چکی ہے لیکن میں اسے سامنے نہیں لانا چاہتا۔ حکومت اگر اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے گی تو یہ عدالت کیا کرے۔ اگر 3 دنوں میں انکوائری کر کے رپورٹ دے دی جاتی تو معاملہ ختم ہو جاتا۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سیشن جج کو بھی عدالتی معاونین کی کمیٹی میں ڈالا جائے۔ کمیشن میں ان چار لوگوں کے ساتھ ہمارے اطمینان کے لیے کسی ایک اور شخصیت کو شامل کر لیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ججز کو کمیشن میں شامل نہیں کیا جاتا۔ بنیادی مسائل ہیں کہ کیا زبردستی اسلام قبول تو نہیں کرایا گیا ؟ دوسرا یہ کہ کیا لڑکیاں کم عمر تو نہیں ہیں جب کہ جو معاونین مقرر کیے گئے ہیں ان کی رپورٹ از خود اہمیت کی حامل ہوگی۔

عدالت نے مفتی تقی عثمانی کو بھی کمیشن کا حصہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ کو طلب کر لیا جب کہ آئندہ سماعت پر عدالت نے وزیر اعظم کے حکم پر انکوائری کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے لڑکیوں کے میڈیکل چیک اپ کے لیے نیا میڈیکل بورڈ بنانے کا بھی حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 11 اپریل تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مبینہ مغوی لڑکیاں سرکاری تحویل میں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری داخلہ سے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ آج طلب کر رکھی ہے

عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر جاری تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالت نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سمیت 4 شخصیات کو عدالتی معاون بھی مقرر کر رکھا ہے۔ جن میں شیریں مزاری کے علاوہ خاور ممتاز، ڈاکٹر مہدی حسن اور آئی اے رحمان شامل ہیں۔

واضح رہے کہ عدالت نے دونوں لڑکیوں کو وفاقی حکومت کی تحویل میں دے کر حفاظت یقینی بنانے کا حکم دے رکھا ہے۔

سندھ کے ضلع ڈہرکی سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی لڑکیوں نے مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے کے بعد پسند کی شادی کا وڈیو بیان دیا تھا۔

مسلمان ہونے والی روینا کا نام آسیہ بی بی رینا کا نادیہ رکھا گیا۔ روینا کا نکاح صفدر جب کہ رینا کا برکت سے ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی لڑکیوں کے مبینہ اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کی ہدایت کی تھی جب کہ 26 مارچ کو دونوں لڑکیاں اپنے شوہروں کے ہمراہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔


متعلقہ خبریں