سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کے قانون پر سوالات اٹھا دیئے


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کے قانون پر سوالات اٹھا دیئے۔

سپریم کورٹ میں دہشت گردی کی تعریف سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوجداری مقدمات کو بھی انسداد دہشت گردی کے قانون میں شامل کردیا گیا،انسداد دہشت گردی قانون میں لکھا گیا سیاسی جلسوں پر حملے دہشت گردی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا غیر جمہوری سیاسی جلسے بھی ہوتے ہیں، کیا جمہوری یا غیر جمہوری جلسوں کو جانچنے کیلئے انٹرویو کرنے پڑیں گے، انسداد دہشت گردی قانون میں ابہام ہی ابہام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انسداد دہشت گردی قانون کی وسیع تشریح کرنی پڑے گی۔ منصوبے کے تحت عدم تحفظ پھیلانا دہشت گردی ہے، ہر جرم سے عدم تحفظ پھیلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی محلے میں چوری ہو تو پورا محلہ عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے، جرم عدم تحفظ کی نیت کیا جائے تو یہ دہشت گردی ہے۔ اگر کسی شخص کا دشمن پٹرول پمپ پر کھڑا ہے،قاتل دشمن پر گولی چلاتا ہے اور گولی دشمن کو چھو کر پٹرول ٹینک کو لگ جاتی ہے،پٹرول پمپ پہ دھماکہ ہوتا ہے، چار گاڑیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ نتائج کو کنٹرول کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے متعلق ازخود نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو کنٹرول کرنا حکومت کا کام ہے، ٹرین میں رکھا جانے والا بم نہ بھی پھٹے تب بھی مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا، نتیجے کو سامنے نہیں رکھا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خصوصی عدالتیں بنانے سے غلط اشارہ ملتا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ایک شخص کو قتل کرنےکے لیے آنے والا شخص 15 لوگوں کی جان لے تو یہ بھی دہشت گردی ہوگی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک شخص نے منصوبے کے تحت قتل کیا تو وہ دہشت گردی ہوگی، اگر کسی کا دشمن پٹرول پمپ پہ کھڑا ہو، دشمن پر گولی چلائی جو گورنمنٹ سیکریٹریٹ پہ پٹرول پمپ کو لگے، کیا یہ حکومت گرانے کی سازش سمجھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ جرم سے نتائج سے نیت کو نہیں جانچا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس، انسداد دہشتگردی عدالت کافیصلہ چیلنج

اس موقع پر ایڈووکیٹ برہان معظم نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں چلانے کے لیے عام مقدمات بھی وہاں بھیجے گئے، فوجی عدالتوں میں بھی دہشت گردی کے مقدمات بھیجے گئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ ابھی تک دہشت گردی کی تعریف نہیں کر سکا، امریکہ بھی ابھی دہشت گردی کی تعریف سے متعلق حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکا۔

انہوں نے کہا کہ شور اٹھنے پر لوگوں کو چپ کرانے کیلئے مقدمہ فوجی عدالت اور دہشت گردی عدالت میں بھیج دیا جاتا ہے، جب کسی بارے میں میڈیا پر بہت شور اٹھے تو مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت بھیج دیا جاتا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہر مقدمے کو انسداد دہشت گردی کی عدالت بھیجنا کا پولیس کو لائسنس مل گیا ہے۔


متعلقہ خبریں