ایمنسٹی اسکیم کی مخالف جماعت نے ایمنسٹی کے لیے تجاویز طلب کرلیں



اسلام آباد: ایمنسٹی اسکیم کی مخالف جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے  اسد عمر نے اثاثہ جات پر ایمنسٹی اسکیم کے لیے تجاویز طلب کر لی ہیں۔

اسلام آباد میں پری بجٹ میٹنگ اور گروتھ اینڈ ان ایکویلیٹی ان پاکستان بک لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسدعمر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، طاقتور طبقات معاشی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اثاثہ جات پر ایمنسٹی اسکیم کاروباری لوگوں کی طرف سے مانگی جا رہی ہے، ہم نے تجاویز طلب کی ہیں، اسکیم اگر آئی تو بجٹ سے پہلے آئے گی، ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو اسکیم پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں معیشت کے فیصلے تھیوری کی بنیاد پر ہیں تجربات کی بنیاد پر نہیں، پاکستان میں ریسرچ مقامی سطح پر نہیں کی جا رہی ہے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ غیر ضروری ود ہولڈنگ ٹیکسز کو بجٹ میں ختم کرنے کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کا جال بڑھتا گیا ہے جسے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ ویلتھ ٹیکس کا بہت بڑا حامی ہوں، اس کے علاوہ وراثتی ٹیکس کی بھی حمایت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام سے معیشت پر اثرات پڑتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی مجرم کو سزا نہ دی جائے، یہ قانون کا تقاضا ہے اگر ایسا چلتا رہا تو اس سے معیشت کو طویل عرصے میں فائدہ ہوگا نقصان نہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ معیشت کے فیصلوں کے حوالے سے سیاست کو الگ رکھا جائے اور قومی اسمبلی، سینیٹ اور معاشی ماہرین سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے نظام یا اصلاحات جس کا مقامی سطح پر فائدہ ہو اس سے عالمی ادارے ناراض ہوجاتے ہیں، پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی معاشی نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

چین کے ساتھ معاہدوں کا مقامی کاروبار کو نقصان ہوا، عبدالرزاق داؤد

مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ امپورٹ پر مبنی معیشت ورثے میں ملی جس کی بنیاد پر پورا نظام تکلیف میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں چین اور دوسرے ممالک کی مارکیٹ تک رسائی نہیں مانگی جس میں قصور کسی ملک کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کا مفاد دیکھنا چاہیے تھا۔ ہم نے چین اور انڈونیشیا کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کرلیا ہے۔


عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ چین کو معاہدوں میں زیادہ سے زیادہ گنجائش دی گئی جس کا مجھ سمیت تمام مقامی کاروباری افراد کو نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ کپاس کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ جائز نہیں ہے کیونکہ بیچ کی کوالٹی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار میں کمی ہوچکی ہے۔

مشیر تجارت نے کہا کہ ہر کوئی سبسڈی مانگ رہا ہے، انہیں بتایا ہے کہ اپنا معیار بلند کریں اب یہ تجارتی پالیسی کا ویژن ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کو بتایا کہ ہمارے پاس تین راستے ہیں۔کاروبار ختم ہونے دیں، سبسڈی دیں اورکچھ عرصے کے لیے زندہ رکھیں یا سرمایہ کاری کرکے آپ کے کاروبار کو اپ گریڈ کرکے ہمیشہ کے لیے مسئلہ حل کریں۔

عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پورے نظام میں اصلاحات کررہے ہیں، اس دوران درد بھی ہوگا اور شور بھی لیکن درست کرنا ہی مسئلے کا حل ہے اور یہی ہمارے لیے چینلج ہے۔

ہمارا ہدف ٹیکس نظام کی خامیاں دورکرنا ہے، حماد اظہر

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ہم گزشتہ سال کے مقابلے میں اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکے ہیں، ایف بی آر گزشتہ دس سالوں میں سے آٹھ سال اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکا ہے۔


انہوں نے کہا کہ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ قومی خزانے کے استعمال کا انداز محتاط رکھا گیا۔

حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ فارن ایکسچینج پر رہی جس کی کامیابی بھی نظر آرہی ہے، تجارتی خسارہ بھی کم ہورہا ہے اور اگلے مالی سال میں مزید کمی نظر آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف ٹیکس نظام میں اصلاحات ہے جس کے تحت ایف بی آر اور موجودہ قوانین میں موجود رکاوٹیں ختم کررہے ہیں اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی مدد لے رہے ہیں۔

وزیر مملکت نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا اس حوالے سے صوبائی سطح پر ٹیکس اکھٹے کرنے کی اداروں میں بھی بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، سرتاج عزیز

سابق مشیر خزانہ سرتاج عزیز نے کہا کہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ مینوفیکچرنگ شعبے کی پیداوار میں دو فیصد کمی ہوئی ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس میں بغیر کسی منطق اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، رواں سال معاشی شرح نمو صرف تین فیصد رہے گی۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ زراعت اور پانی کے استعمال پر خصوصی توجہ دینے سے معیشت کو بہت زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدی سیکٹر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایکسپورٹر کو سستی بجلی فراہم کرنا ہوگی۔

پاکستانی کمپنیوں پر چینی کمپنیوں کو ترجیح دی گئی، حفیظ اے پاشا 

سابق مشیر خزانہ حفیظ اے پاشا نے کہا کہ با اثر طبقات کو دو ہزار ارب روپے کی ٹیکس مراعات دی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں میں فرق رکھا جارہا ہے۔ چینی کمپنیوں کو 30 سال کی انکم ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ پاکستان کی کمپنی کو یہ ٹیکس چھوٹ کیوں نہیں دی جاتی۔

حفیظ اے پاشا نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بہت بڑی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، پراپرٹی سیکٹر پر کیپٹل گین ٹیکس لگایا جائے۔ انہوں نے ملک میں ترکی کا ٹیکس ماڈل نافذ کرنے کی تجویز دی۔


متعلقہ خبریں