سانحہ بلدیہ: ملزم نے کیمیکل پھینکا، آگ بھڑکی تو مسکراتا رہا، عینی شاہد


کراچی: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں روپوش عینی شاہد نے ملزم  زبیر چریا کو شناخت کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم نے گودام میں رکھے کپڑے پر کیمیکل پھینکا اور آگ بھڑکی تو کھڑا مسکراتا رہا۔

اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے عینی شاہد کو آج عدالت میں پیش کیا۔ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر گواہ کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔

عینی شاہد نے بتایا وقوعہ کے روز وہ فیکٹری میں موجود تھا۔ زبیر چریا نے جیب سے تھیلیاں نکال کر گودام میں موجود کپڑے پر پھینکی۔ یہی عمل دوسری منزل پر جاکر کیا۔ ملزم آگ لگنے پر مسکراتا رہا۔ عینی شاہد کا کہنا ہے وہ ملزم کے دیگر ساتھیوں کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔

ملزموں زبیر چریا اور عبد الرحمان عرف بھولا کے وکیل نے جرح کی کہ سانحہ کے اتنے عرصے بعد بیان کیوں قلمبند کرایا۔

عینی  شاہد نے کہا کہ اسے جان کا خطرہ تھا، اس لئے وہ پنجاب چلا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے بلایا اور تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی تو آکر بیان دیا۔

عینی شاہد نے جوڈیشنل مجسٹریٹ کے روبرو بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر بیان کے لئے جوڈیشل مجسٹریٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے، کارروائی تین اپریل تک ملتوی کردی۔

’عینی شاہد کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی جاری ہے‘

دوسری جانب رینجرز پراسیکیوٹر ساجد محبوب کا کہنا ہے کہ سانحہ بلدیہ کے عینی شاہد کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عینی شاہد 2015 میں بھی پنجاب سے کراچی آیا تھا، عینی شاہد نے جوڈیشل مجسٹریٹ زیر دفعہ 164 کا بیان ریکار کروایا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ: عُزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹس طلب

جے آئی ٹی نے دوبارہ طلب کرنے پر  انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا ہے۔

عینی شاہد فیکٹری میں سینئر الیکٹریشن تھا جس کے مطابق زبیر چریا سمیت پانچ ملزمان سانحہ بلدیہ فیکٹری کے ذمہ دار ہیں۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن

11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ لگنے سے 250 سے زائد افراد زندہ جل کر  جاں بحق ہوگئے تھے۔

زندگی ہارنے والوں کی لاشیں اس قدر جھلس چکی تھیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر لواحقین بھی انہیں پہچان نہ سکے۔

فیکٹری میں آگ لگنے پر مزدوروں نے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن فیکٹری کا واحد دروازہ بند کئے جانے کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی۔

سائٹ کے گنجان آباد علاقے میں واقع اس غیر قانونی فیکٹری میں ہنگامی حالات کی صورت میں اخراج کے محدود راستوں کو بھی ہلاکتوں کی بڑی وجہ قرار دیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں واقعہ کا مقدمہ چھ سال سے زیر سماعت ہے۔ عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی، کارکن زبیر عرف چریا اور عبدالرحمٰن بھولا پر فرد جرم عائد کی تھی اور علی حسن قادری کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ اس نے زبیر عرف چریا اور دیگر افراد کے ساتھ مل کر حماد صدیقی کے کہنے پر فیکٹری کو آگ لگائی تھی کیونکہ مالکان نے  بھتے کی رقم اور فیکٹری میں شراکت داری دینے سے انکار کردیا تھا۔

اکتوبر 2017 میں ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کو دبئی سے گرفتار کیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں