آئین پاکستان کا خالق ، ذوالفقار علی بھٹو


پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ، وزیر اعظم ، وزیر خارجہ ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ اور بطور اسپیکر مختلف حیثیتوں میں ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ۔  آئین پاکستان کی تشکیل سے لیکر ملک کو ایٹمی طاقت بنانے تک کا یہ سفر 1979 میں بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا۔
سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ذوالفقار علی بھٹو  کو قائد عوام اور بابائے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1953 میں وکالت کا آغاز کیا ۔  ایوب خان کی حکومت میں وزیر تجارت رہے۔ 1967 میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور 1971 سے 1973 تک صدر پاکستان کے عہدے پر متمکن رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں نئے آئین کے تحت ملک کے وزیر اعظم کا حلف بھی اٹھایا۔
1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قائدانہ اور انتھک کاوشوں  کا ہی نتیجہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا گیا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو ان کو عبرتناک مثال بنا دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی دھمکی کو مسترد کیا اورایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر قدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔

ذوالفقار علی بھٹو  کے دور حکومت میں زرعی اصلاحات ہوئیں، صنعتیں، مالیاتی ادارے، تعلیمی ادارے، قومی تحویل میں لئے گئے۔ 1960ء اور 1970کی دہائیاں اداروں کو قومی تحویل میں لینے کی سیاست کی دہائیاں تھیں۔
ستمبر 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کوقتل کے ایک مقدمے میں اعانت کے الزام میں  گرفتار کیا گیا ۔  18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا۔  4 اپریل 1979 کو راولپنڈی میں  پھانسی دے دی گئی ،،

روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام بھی کہا جاتا ہے  1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی اور جمہوریت کے استحکام کی جدوجہد کا سفر شروع کیا ،، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو بیک وقت دو دستور دئیے۔  وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مشن کو آگے لیکر چلے ۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کہتے ہیں کہ عوام کی حاکمیت کی بات کرنے پرذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں درخواست کے باوجود ان کے عدالتی قتل کی آج تک تحقیقات نا کرائی جاسکیں۔
استحکام پاکستان میں بھٹو کی اہمیت تاریخی حیثیت  کی حامل ہے ۔ بھٹو کا فلسفہ تھا کہ جمہوریت میں ہی ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔

’لینڈ ریفارمز کیا ہیں ؟ بھٹو کیوں کامیاب نہ ہوئے؟ ‘

پاکستان کےمقبول ترین سیاسی رہنماذوالفقارعلی بھٹوبھی برسراقتدارآنےکےباوجود ملک میں لینڈ ریفارمز نہ لاسکے لینڈ ریفارمز کیا ہیں اورذوالفقاربھٹو کو اس میں کیوں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہ انتہائی اہم سوال ہے ؟
لینڈریفامززمینوں کی تقسیم کانظام ہے۔ اس نظام  کےتحت ملکیتی شاملاٹ ، دیہہ ، چراگاہیں،  جنگلات  اورپہاڑوں کی مالک سرکار ہوتی ہے۔اوران زمینوں میں پائی جانے والی معدنیات سمیت دیگر ثمرات پربھی حکومت کا حق تصور کیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹونےبھی اقتدار میں آنے کےبعد ملک میں لینڈ ریفارمز کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا مگرکامیاب نہ ہوسکے۔

سینیئر صحافی  حسین نقی  کہتے ہیں  بھٹو کو دو تین مشکلات کےباعث اعلان کے باوجود لینڈ ریفامز نافذ نہیں ہوسکا۔ لینڈ ریفارمز کے لیے سرمایہ دار بڑی رکاوٹ بنے
ظاہر ہے جب سرمایہ دار طبقہ حکومت میں بھی حصہ دار ہو تو ایسا نظام کیوں کر نافذ ہوسکتا ہے جس میں سراسران کا ذاتی نقصان ہو۔؟ اور اگر حکومت اپنے اختیارات کے استعمال میں پرعزم ہو تو دوست بھی دشمن بن سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ المیہ ہے کہ جب بھی ایسا علان ہوا لوگوں کی وفاداریاں بدل گئیں۔ بھٹو کے دوستوں نے بھی ایسا کرنے پر  مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دھکمی دی۔
دوستوں کا اصل چہرہ دیکھ کر عوامی لیڈر نےملک کے وسیع تر مفادمیں اپنےوزرا کے ذریعے بھی لینڈ ریفارمز لانے کی بھرپورکوشش کی لیکن سرمایہ داروں نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔
بھٹو کافنانس منسٹر بڑا سخت تھا اس نے سرمایہ داروں کو پریشان کیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور میں لینڈ ریفامز کا نفاذ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو آج ملک کی سیاسی ،سماجی اور معاشرتی صورتحال ہی کچھ اور ہوتی۔ کسی سے قرض لینا پڑتا اور نہ ہی حکومتوں کوکشکول لے کر در در پھرنا پڑتا۔


متعلقہ خبریں