اسلام آباد کی حالت لاہور اورکراچی سے بدتر ہوچکی ہے ،سپریم کورٹ

ڈینیل پرل قتل کیس:ملزمان کی رہائی روکنے کے حکم میں توسیع کی استدعا مسترد

فائل فوٹو


سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی حالت لاہور اورکراچی سے بدتر ہوچکی ہے ۔ سپریم کورٹ کی یہ آبزرویشن سی ڈی اے کی کارکردگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئی۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی  سماعت کی۔

سپریم کورٹ کی طلبی پر سی ڈی اے چیرمین عدالت میں پیش ہوئے ۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کیا سی ڈی اے کو عدالت نے جگانا ہے؟سی ڈی اے اپنا کام کیوں نہیں کرتا؟

عدالت حکم پاس کر رہی ہے ان پر سی ڈی اے عمل نہیں کرتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا سیوریج سسٹم کے حوالے کیا پیش رفت ہوئی؟

جسٹس گلزار احمد نے پوچھا چیرمین صاحب بتائیں کیا عدالتی حکم پر عمل درآمد کیا ہے آپ نے؟
چیرمین سی ڈی اے نے کہا مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
یہ جواب سن کر جسٹس گلزار احمد چیرمین سی ڈی اے پر برہم  ہوگئے اور کہا اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو یہاں بیٹھے کیوں ہیں؟
اب تک کیا کیا ہے آپ نے؟ آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں؟
کیا آپ سارے اسلام آباد کو کچی آبادی بنانا چاہتے ہیں؟
نئے ائیرپورٹ پر جا کر دیکھیں کیا ہو رہا ہے وہاں پر؟
مجھے لگا یہ صورتحال صرف کراچی میں ہے، اسلام آباد کو وفاقی دارالحکومت بنانے کا مقصد ہی فوت ہو گیا ہے۔آپ نے پہاڑوں کے پہاڑ اور جنگلوں کے جنگل ختم کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:سی ڈی اے میں سب سے زیادہ گڑ بڑ ہو رہی ہے، چیف جسٹس

جسٹس گلزار احمد  نے کہا مارگلہ کو تو سپریم کورٹ نے بچا کر رکھا ہوا ہے،ندیاں نالے گندگی کے ڈھیر بن چکے ہیں،  آپ نے راول جھیل کا کیا حال کر دیا ہے؟
جسٹس گلزار احمد نے چیرمین سی ڈی اے سے مکالمے میں کہا آپ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے
،اس سے بہتر ہے آپ کسی اور جگہ تشریف لے جائیں۔آپ کو پلاٹ تو مل گیا ہو گا
چیرمین سی ڈی اے نے جواب دیا ’’میں نے کوئی پلاٹ نہیں لیا۔‘‘ اگر آپ مجھے موقع دیں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں،
جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کیا آپ نے عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیا ہے؟
چیرمین سی ڈی اے نے جواب دیا ہم نے زمین کیلئے سروے کیا ہے
جسٹس گلزار احمد نے دوبارہ پوچھا مجھے یہ بتائیں کہ فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہوا یا نہیں ؟
اس پر چیرمین سی ڈی اے نےاعترافی  جواب دیا کہ عدالت کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا آپ یہاں کس کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں ؟
اسلام آباد کے اردگردکچی آبادیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بھاراکہو اوربنی گالہ کے جنگلات ختم ہوگئے ہیں اوروہاں آبادی ہی آبادی ہے ۔
راول جھیل گٹر بن گئی ہے اورصاف پانی کی ندیاں کوڑے سے بھری ہوئی ہیں،جبکہ ان ندیوں کے اردگرد واک ٹریک اورگارڈنز ہونے  چاہئیں تھےجیساکی پوری دنیا میں ہوتا ہے۔
مارگلہ ہل کے جنگلات بھی ہم نے بچائیں ہیں ورنہ آپ نے وہاں بھی الاٹمنٹ کرنی تھی

جسٹس گلزار نے کہا  کہیں کمشنر زمینیں الاٹ کررہا ہے تو کہیں مجسٹریٹ ،آپ کا کیا کام ہے؟
اسلام آباد کی حالت لاہور اورکراچی سے بدتر ہوچکی ہے جبکہ یہ نیا شہر ہے۔

چیئرمین سی ڈی اے صاحب ہمیں لالی پاپ نا دیں،
میں جب سے اسلام آباد آیا ہوں دیکھ رہا ہوں آپ سے کشمیر ہائی وے مکمل نہیں ہوا۔ کشمیر ہائی وے پر اسٹرکچر کو ادھورا چھوڑ رکھا ہے، کبھی یہ نہیں سوچا ان جگہوں پر جرائم پیشہ افراد پناہ لے سکتے ہیں،

ان جگہوں پر بھنگی اور چرسی بیٹھے ہوتے ہیں کیا یہ آپ کی کارکردگی ہے؟
آپ کا بس ایک ہی کام ہے پلاٹ بنا کر بیچتے رہو اور کچی آبادیاں بناتے رہیں۔
میں تو حیران ہوتا ہوں کیا یہ اسلام آباد ہے؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے معذرت کے ساتھ آپ کے شہر کی حالت کراچی اور لاہور سے بھی بدتر ہے، چیرمین سی ڈی اے سے جسٹس گلزار نے پوچھا آپ بتائیں کیا کرنے جا رہے ہیں؟
اس پر چیرمین سی ڈی اے نے کہا  انشاءاللہ۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا انشاءاللہ کا کیا مطلب ہے؟
جسٹس عمر عطا نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس سارے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا دنیا کے بہت سے دارالحکومت دیکھے ہیں وہاں ہر چیز بہترین ہوتی ہے
۔آپ کہتے ہیں تو سی ڈی اے اور میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کو تحلیل کر دیتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا نے کہا ہر کمرشل اور رہائشی منصوبے میں فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی اپنا انتظام بھی ہونا چاہیے چیرمین سی ڈی اے نے جواب دیا بدقسمتی سے اسلام آباد میں کوئی مستقل ڈمپنگ سائٹ نہیں ہے۔ سنگجانی میں مستقل ڈمپنگ سائٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔آج تحفظ ماحولیات کی ٹیم سنگجانی سائٹ کا وزٹ کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے:اسلام آباد: سی ڈی اے نے اونچی عمارتوں کی تعمیر کیلئے سول ایوی ایشن کے قوانین اپنالیے

جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک ٹائم لائن بتائیں کب تک یہ عمل مکمل ہوگا
چیرمین سی ڈی اے نے کہا ایک ماہ میں پراجیکٹ کی تمام رکاوٹیں دور کر لیں گے
جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کیا ایک ماہ میں یہ سب ممکن ہوگا؟
چیرمین سی ڈی اے نے کہا عدالت مہلت دے ایک ماہ میں پیش رفت دیں گے۔
سپریم کورٹ نے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی


متعلقہ خبریں