کراچی: پولیس مقابلہ، جاں بحق ہونے والے سجاد کی نماز جنازہ ادا


کراچی : شہر قائد کے علاقے قائد آباد میں ہونے والے ایک اور مبینہ پولیس مقابلے میں زخمی ہونے والا 12 سالہ معصوم بچہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔

ہم نیوز کے مطابق مقتول بچے سجاد کی نمازجنازہ قائد آباد وکیل ہوٹل کے قریب ادا کردی گئی جس میں عزیز و اقارب اور محلے داروں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جب میت کو تدفین کے لیے مولا مدد قبرستان لے جایا جانے لگا تو اس وقت انتہائی رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ معصوم بچے کی موت پروہاں موجود ہر آنکھ اشکبار تھی اور دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

ملیر پولیس کے مطابق اس نے سجاد، عمر اور دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرککے زخمی کرنے والے ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق 12 سالہ زخمی بچے سجاد نے جناح اسپتال میں دوران علا ج دم توڑ دیا تھا جس کے بعد جاں بحق ہونے والے سجاد کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

قائد آباد میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے 12 سالہ سجاد کے لواحقین نے فراہمی انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اس ضمن میں شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مقتول سجاد کے والد عدالت خان نے ہم نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عوامی مقامات پر اس طرح کے مقابلے نہ کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکارعلاقے میں روز آتے تھے اور پولیس اچھی طرح جانتی ہے کہ کون جرائم پیشہ ہے اور کون عام آدمی ہے؟

عدالت خان نے کہا کہ پولیس کو معلوم ہے کہ اس علاقے میں منشیات فروخت ہوتی ہے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہعلاقے میں چہل پہل اور لوگوں کی آمد ورفت کے دوران فائرنگ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا معصوم بیٹا سجاد دوائی لینے گیا تھا اور واپس آرہا تھا کہ اسی دوران فائرنگ شروع ہوگئی۔

عدالت خان کے مطابق پولیس میں اناڑی اہلکار بھی بھرتی کرلیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں قانون سازی ہونی چاہیے۔

12 سالہ مقتول بچے سجاد کے والد عدالت خان نے ہم نیوز سے بات چیت میں مطالبہ کیا کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے کہ ان کے بیٹے کو کس کی گولی لگی ہے؟

ہم نیوز کے مطابق مقتول سجاد کے بہنوئی صدام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمیں شبہ ہے کہ مقتول کو پولیس کی گولی لگی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ شہری آبادی میں گولیاں چلانا کہاں کا اصول ہے؟

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔ ان کا سوال تھا کہ ہمارا بے گناہ بچہ جان سے گیا ہے، ہمیں انصاف کون دے گا؟

صدام نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بچہ جان سے چلا گیا اور ہم ڈیتھ سرٹیفکٹ کے حصول کے  لیے بھی دھکے کھاتے پھررہے ہیں۔

قائد آباد میں فائرنگ سے زخمی ہو کر اسپتال لائے جانے والے 12 سالہ بچے کے انتقال کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر اعجاز احمد نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بچے کو زندہ حالت میں اسپتال لایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مقتول کو دو گولیاں لگی تھیں جن میں سے ایک سر کے دائیں جانب پیچھے سے لگی تھی اور اوپر سے پار ہوگئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ دوسری گولی دائیں بازو میں لگی تھی اور ہڈی توڑتی ہوئی نکل گئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ سر میں لگنے والی گولی موت کا سبب بنی کیونکہ اس سے دماغ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر اعجاز احمد کے مطابق زخم کی نوعیت دیکھ کر لگتا ہے کہ گولی چھوٹے ہتھیار کی تھی اور چار سے پانچ فٹ کے فاصلے سے لگی تھی۔

کراچی کے علاقے قائدآباد میں پولیس اور ملزم کے درمیان مبینہ طور پر فائرنگ کاتبادلہ ہوا تھا جس میں دو پولیس اہلکاروں سمیت دو معصوم سجاد اور عمر خمی ہوئے تھے۔

فائرنگ کے واقع کے بعد ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ قائد آباد میں پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس پر فائرنگ کرنے والا ملزم زخمی حالت میں گرفتارہوا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ زخمی ملزم شیر زمان عرف ڈورا سے اسلحہ بھی برآمد کر لیا گیاہے۔

ایس ایس پی نے کہا تھا کہ ملزم کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکاروں سمیت دو بچے زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

ایک سوال پر عرفان بہادر کا کہنا تھا کہ دونوں پولیس اہلکار عطا اور طاہر انٹیلیجنس ڈیوٹی پر مامور تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملزم شیر زمان عرف ڈورا پر پولیس پر فائرنگ سمیت دیگر سنگین نوعیت کے متعدد مقدمات درج ہیں۔

ایک سوال پرانہوں نے کہا تھا کہ گرفتار ملزم کا مزید کرمنل ریکارڈ اکھٹا کیا جا رہا ہے۔ زخمی بچوں کے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان کی شناخت سجاد اورعمر کے ناموں سے کر لی گئی ہے۔

ہم نیوز کے مطابق ایس ایچ او قائد آباد شعیب قریشی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ہونے والا زخمی ملزم عادی مجرم ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم دس سے رائد وارداتوں میں پولیس کو مطکوب تھا۔

شعیب قریشی کے مطابق ملزم پر اسٹریٹ کرائمز اور پولیس مقابلوں کے درجن سے زائد مقدمات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار ملزم حال ہی میں جیل سے ہو کر آیا ہے۔

ایس ایچ او نے کہا کہ ملزم نے پولیس کو دیکھتے ہی اندھادھند فائرنگ کردی تھی اور پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ملزم زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔

شعیب قریشی نے کہا کہ ملزم کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔

ایس ایس پی ملیر عرفان بہادرنے کہاہے کہ  تفتیش جاری ہے۔معلوم کررہےہیں بچے کوکس کی گولی لگی؟ والدین نےانصاف کی اپیل کردی ہے ۔ واقعہ کا مقدمہ سرکاری مدعیت میں قائدآباد تھانے میں درج کرلیا گیا۔ قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
واقعہ میں عمرنامی کم عمربچہ بھی زخمی ہواجسکےپیرمیں گولی لگی ہے۔مرنیوالےسجاد کےاہل خانہ نےمطالبہ کیا ہے اگرپولیس کی غفلت ہےتوانکےخلاف کارروائی کی جائے۔
ایس ایس پی ملیر جاں بحق بچےکےاہل خانہ سےملنےانکی رہائشگاہ پہنچے اورورثا کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔
پولیس کا کہنا ہےکہ واقعہ میں دواہلکاربھی زخمی ہوئےہیں علاقےمیں منشیات فروشوں کےخلاف کریک ڈاؤن کیلئےآپریشن کیا جارہا تھا جس پرملزمان کی فائرنگ کے جواب میں پولیس نے فائرنگ کی۔

کراچی میں  مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 12سالہ لڑکے کی ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں ، اس سے پہلے بھی  میڈیکل کالج کی طالبہ،ڈیفنس میں دس سالہ بچی امل  اور کئی شہری اناڑی پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
لانڈھی قائد آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں ایک اور  شہری کی جان گئی  تو  پولیس کی مہارت اور  تربیت پر ایک بار  پھر سوال اٹھ گئے۔ہمیشہ کی طرح پولیس  حکام اس مرتبہ بھی پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے وضاحتیں دے رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھیے:کراچی: طارق روڈ پر پولیس مقابلہ، راہ گیر شہری رب نواز جاں بحق

اس سے پہلے 22فروری  کی شب  نارتھ کراچی میں میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی ہلاکت   کے وقت بھی  پولیس نے  ڈاکؤوں کو نمرہ کی موت کا ذمہ دار قرار دیا تھا،مگر ڈی آئی جی، سی آئی اے  کی سربراہی میں تحقیقات ہونے پر واضح ہوا کہ نمرہ پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ 

 رواں برس کے آغاز میں بھی  کورنگی میں میاں بیوی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے،گذشتہ برس بیس جنوری کی صبح  شارع فیصل پر پولیس نے ڈاکؤوں کا  تعاقب کرتے فائرنگ کی اورراہگیر نوجوان مقصود کی جان لے لی تھی۔ 


متعلقہ خبریں