ہیکنگ اسکینڈل، طالبات کی خفیہ معلومات فروخت ہونے لگیں



لاہور: ہیکرز کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کا ڈیٹا ہیک کرکے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

اسپائی ایپلیکیشنز کے ذریعے چرائی گئی یونیورسٹی طالبات کی معلومات کو مارکیٹ میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ڈیپ ویب پرطالبات کی تصاویر، ویڈیوز اور فون نمبرز بھی دستیاب ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کی طالبات کی معلومات ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائنز میں فروخت ہورہی ہیں۔ ایک بٹ کوائن کی قیمت پاکستانی سات لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔

اسکینڈل کا انکشاف ہونے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا تھا کہ ہیکرز نے سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ فیس بک کے 81 ہزار صارفین کی معلومات چرا کر فروخت کے لیے پیش کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ہیکرز کا حملہ، فیس بک صارفین کا ڈیٹا فروخت کے لیے پیش

اسی طرح گزشتہ سال یہ معلومات بھی سامنے آئی تھیں کہ پاکستان کے 22 بینکوں کے 19 ہزار 846 صارفین کے کارڈز کی معلومات بیچنے کی غرض سے ڈارک ویب پر ڈالی گئیں۔

وہاں پر آتشیں اسلحہ، منشیات یا خصوصی فحش فلمیں فروخت کی جاتی ہیں اور اس کے لیے خصوصی کرنسی مثلاً بٹ کوائن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس دنیا میں ایسی بھی مارکیٹس موجود ہوتی ہیں جہاں آپ کو اجرتی قاتل دستیاب ہوتے ہیں جنہیں آپ خرید کر کسی کو بھی قتل کروا سکتے ہیں۔

یہ دنیا ایسے لوگوں اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہیں جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔

ڈارک ویب کیا ہے؟

ڈارک ویب انٹرنیٹ کا وہ حصہ ہے جہاں تک رسائی اتنی آسان نہیں اور عام صارف کے لیے تو تقریبا نا ممکن ہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عام صارف کے لیے یہ ایک ناقابل تلاش دنیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

ڈارک ویب انٹرینٹ کی وہ دنیا ہے جہاں ڈارک نیٹ مارکیٹیں سرگرم ہیں۔ اس کو زیادہ غلط کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر اسلحہ، منشیات اور فحش فلموں  کی فروخت کی جاتی ہے۔

ڈارک ویب پر کرنسی بھی خصوصی استعمال کی جاتی ہے جو بٹ کوائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس پر ایسی مارکیٹس بھی موجود ہیں جو کسی کو قتل کرانے کے لیے قاتل بھی فراہم کرتیں ہیں اور لوگ کسی کو قتل کرنے کے لیے قاتل خرید سکتے ہیں۔

اس دنیا میں ایسے افراد بستے ہیں جو ہماری دنیا کی نظروں سے اوجھل رہنا چاہتے ہیں اور خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتوں سے چھپا کر رکھتے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں