بھارت: مسلمان بزرگ پر تشدد، ہجوم نے خنزیر کھلا کر جان بخشی

بھارت: مسلمان بزرگ پر تشدد، ہجوم نے خنزیر کھلا کر جان بخشی

آسام: انتہا پسندانہ سوچ کی حامل ’مودی سرکار‘ کے راج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پرہجوم تشدد کا ایک اور نفرت انگیز واقعہ سامنے آگیا ہے۔

آسام کے وشوناتھ چریالی قصبے میں مشتعل ہجوم نے ایک 68 سالہ بزرگ مسلمان شوکت علی کو گائے کا گوشت بیچنے کے شبہ میں نہ صرف سرعام بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان کو کیچڑ میں لت پت کرکے خنزیر کا حرام گوشت کھلایا۔

بی جے پی کی ملک گیر نفرت انگیز سیاست کے پیروکاروں نے کس طرح ایک مسلمان کی جان بخشی کی اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو سے کیا جا سکتا ہے۔

وڈیو میں نظر آرہا ہے کہ بزرگ شوکت علی رحم کی بھیک مانگ رہا ہے اور پرہجوم جنونی انتہا پسند ہندوؤں کا غول اس کی جان بخشی کی قیمت خنزیر کا گوشت کھلا کر وصول کررہا ہے۔

وڈیو میں دکھائی اور سنائی دے رہا ہے کہ بعض افراد مقامی آسامی زبان میں بزرگ مسلمان شہری سے استفسار کررہے ہیں کہ اس کی شہریت کیا ہے؟

جنونی ہندوؤں کا جتھہ اس سے یہ بھی استفسار کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ کیا وہ بنگلہ دیشی ہے؟ اور کیا اس کا نام شہریت کے قومی رجسٹر میں درج ہے؟

بھارت کے مقامی ذرائع ابلاغ نے علاقہ پولیس کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ شوکت علی کاروباری شخص ہے اور گزشتہ 35 سال سے اسی جگہ پر ہوٹل کے کام سے منسلک ہے۔

بدترین تشدد کے نتیجے میں زخمی ہونے والے بزرگ شوکت علی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ علاقہ پولیس نے متاثرہ خاندان کی درخواست پر ایف آئی آر درج کرلی ہے۔

شوکت علی نے مقامی ذرائع ابلاغ کوبتایا کہ ہجوم نے تشدد کے دوران اس کے منہ پر باقاعدہ لاتیں ماریں اور تشدد کے دیگر طریقے اپنائے۔

شوکت علی کے بھائی شہاب الدین بھی گوشت کے کام ہی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بھائی پر کیے جانے والے تشدد پر سخت افسوس و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ وہ بھی اس واقعہ سے خوف محسوس کررہے ہیں۔

بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق واقعہ میں ملوث دو افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ہے جب کہ اسی سلسلے میں حراست میں لیے گئے پانچ دیگر افراد کو اس ضمانت پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ آئندہ اپنا رویہ درست اور بہتر رکھیں گے۔

ایک ہفتہ قبل بھی ہریانہ کے گوڑ گاؤں میں ایک ہندو تنظیم ہندو سینا کے 200 کارکنوں نے حملہ کرکے گوشت کی درجنوں دکانیں زبردستی بند کرادی تھیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق حملہ آور تلواروں اور دیگر اسلحہ سے لیس تھے۔

 

آسام میں پیش آنے والے واقعہ پر امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سیاسی کارکن اور تجزیہ نگار ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا ہے کہ انتخابات کے پیش نظر ماحول کو عمداً فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے اعتراف کیا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے فرقہ واریت کی یہ سیاست جاری ہے تاکہ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے دعویٰ کیا کہ گائے سے ان لوگوں کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے مثال پیش کی کہ مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جو کہ بی جے پی کے لیڈر ہیں باقاعدہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ گائے کھاتے ہیں لیکن گائے کے نام پر لوگوں کو مارنے والوں کو یہ جرات نہیں ہے کہ وہ کرن رجیجو پر چڑھ دوڑیں اور نہ ہی حکومت انہیں کابینہ سے نکالتی ہے۔

وی او اے کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نائب صدر وینکیا نائیڈو نے جو کہ آر ایس ایس کے رہنما رہے ہیں، کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ وہ گائے کھاتے ہیں۔

ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ گوا میں بی جے پی حکومت کے تحت گائے کے گوشت کا کاروبار چلتا ہے۔ یو پی کے ایک وزیر گائے کے گوشت کی ایک فیکٹری میں پارٹنر ہیں۔ اروناچل پردیش میں بی جے پی نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ بیف پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کا اصل مقصد ماحول کو خراب کر کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ  کے مطابق مجلس اتحاد المسلیمین کے صدر اسد الدین اویسی نے آسام کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے واقعات نے بہت سے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق گوڑگاؤں میں ہندو سینا کے دو کارکنوں راکیش اور پرمود کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

مقامی پولیس کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ نے تصدیق کی ہے کہ گرفتار افراد پہلے بھی اسی طرح کے پرتشدد واقعات میں ملوث رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں