اسرائیلیوں نے امن کے خلاف ووٹ دے دیا ہے، صائب اراکات

اسرائیلیوں نے امن کے خلاف ووٹ دے دیا ہے، صائب اراکات

تل ابیب: امت مسلمہ کو ’بنیاد پرستی‘ کا طعنہ دینے والے اور پوری دنیا کو مذاکرات کی اہمیت سمجھانے میں مصروف امریکہ نے اسرائیل میں بنیاد پرستوں اور ’قبضہ گروپ‘ کے حامی دائیں بازو کی حامی سیاسی جماعتوں کی بلواسطہ طور پر حمایت کرکے منعقدہ انتخابات میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا سیاسی پلڑا بھاری کردیا ہے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق کمزور سیاسی پوزیشن کے حامل نتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو غیر قانونی طور پر جائز قراردیا تو اندرون ملک ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اچانک بے پناہ اضافہ ہو گیا۔

نتن یاہو کی مقبولیت کے ساتھ ہی ان کی سیاسی اتحادی جماعتیں جو دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں، بنیاد پرست ہیں اور قبضے کی حامی ہیں، کی مقبولیت بھی بڑھ گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے مضبوط حریف گردانے جانے والے بینی گینٹز  کی مقبولیت میں بے پناہ کمی واقع ہوگئی۔

اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو گزشتہ کچھ عرصے قبل تک اندرون ملک سیاسی طور پر نہایت کمزور پوزیشن پر تھے کیونکہ انہیں بدعنوانی، رشوت سانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے سنگین نوعیت کے الزامات کا سامنا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم کی اہلیہ بھی انھی الزامات کی زد میں ہیں۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایگزٹ پولز کے مطابق مذاکرات کی حامی جماعتیں پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس صورتحال پر فلسطینی رہنما صائب اراکات کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں نے امن کے خلاف ووٹ دیا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق فلسطین کے سینیئر رہنما صائب اراکات کا مؤقف ہے کہ عام انتخابات کے نتائج سے لگتا ہے کہ اسرائیلی عوام نے موجودہ حکمرانوں کو ہی برقرار رکھا ہے اور وہ امن نہیں بلکہ قبضے کے خواہش مند ہیں۔

انتخابات کے ایگزٹ پولز سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے مخالف بینی گینٹز میں کانٹے کا مقابلہ ہے ۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت بھی اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی مدد کی تھی جب انہوں نے تل ابیب سے دارالحکومت یروشلم منتقل کرنے کی منظوری دی تھی۔

یروشلم کو فلسطینی اور اسرائیلی دونوں اپنا دارالحکومت قرار دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ متنازعہ حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

اسرائیل کے دارالحکومت کی منتقلی ایسا حساس معاملہ تھا کہ کوئی بھی امریکی صدر ماضی میں اس کی جرات نہیں کرسکا تھا۔

گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار دینے کی ہمت بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کوئی نہیں کرسکا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دراصل بلواسطہ طور پر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور ان کی سیاسی اتحادی جماعتوں کی مدد اس لیے کررہے ہیں کہ آئندہ مستقبل میں وہ اپنی مشرق وسطیٰ امن پالیسی کا فروغ چاہتے ہیں اور جس پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے داماد و مشیر کشنر کئی دورے کرچکے ہیں۔

روس کے وزیرخارجہ نے اس ضمن میں باقاعدہ دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر کی ہدایت پر تیار کی جانے والی مشرق وسطیٰ امن پالیسی میں فلسطین نام کی کوئی ریاست نہیں ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے سیاسی مخالفین مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے فلسطین سمیت دیگر متحارب گروپوں سے مذاکرات کے حامی ہیں۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں پہلی مرتبہ عرب آبادی کا ووٹ ٹرن آؤٹ سب سے کم دکھائی دے رہا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور سابق فوجی جنرل بینی گانٹز کے درمیان 120 ارکان پر مشتمل پارلیمان الکنیست کے انتخابات کے لیے سخت مقابلہ ہے۔

نتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے عرب پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی کے لیے اپنے کارکنان کو 1200 خفیہ کیمرے مہیا کیے ہیں۔ اس حرکت پر اسرائیل کی مرکزی الیکشن کمیٹی نے پولیس کو لیکوڈ پارٹی کے خلاف درخواست دے دی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق پارلیمانی انتخابات کے لیے اسرائیل میں دس ہزار پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں اور ملک میں کل 63 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل قرار دیے گئے ہیں۔

عرب میڈیا کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے یہ انتخاب لڑرہے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس مرتبہ بائیں بازو کی جماعتوں سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی لیبر پارٹی کے لیڈر آوی گابی نے اپنی جماعت کے کارکنان سے کہا ہے کہ وہ آخری وقت میں ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور پولنگ مراکز آئیں تاکہ نتن یاہو کو شکست سے دوچار کیا جاسکے۔

عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب بلاک کے قائدین اپنے ہم نسل عربوں سے ٹوئٹر پر اپیلیں کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ان کا اپیلوں میں کہنا تھا کہ اگر وہ ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلتے تو اس طرح وہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا خواب پورا کریں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ الکنیست عرب ارکان سے خالی ہی رہے۔


متعلقہ خبریں