کراچی کی 22 سالہ ماڈل لاہور میں مبینہ طور پر قتل



کراچی کی 22 سالہ ماڈل لاہور میں مبینہ طور پر قتل ہوگئی،اقراء نامی لڑکی ماڈلنگ کے لئے گھر والوں سے ناراض ہو کر کراچی سے لاہور آئی تھی۔

لاہور پولیس کے مطابق گلشن راوی کے رہائشی 3 افراد عثمان،حسن بٹ اور عمر رضا بٹ نے 22 سالہ اقراء سعید کو دو دن پہلے بے ہوشی کی حالت میں شاہدرہ ٹیچنگ اسپتال داخل کرا یا اور فرار ہوگئے۔

دوران علاج اسپتال میں اقراء کی موت واقع ہوگئی، جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اقراء کو نشہ آور چیزکھلائی گئی ،جس سے اس کی ہلاکت ہوئی ہے۔

پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے مردہ خانے منتقل کر کے مقدمے کے اندراج کے بعد  تفتیش شروع کر دی ہے، ماڈل اقراء کا تعلق کراچی سےبتایا گیا ہے۔

لاہورپولیس کا کہنا ہے کہ  اقرا کی اپنے اہلخانہ سے بھی چپقلش چل رہی تھی۔اقرا کے موبائل نمبر کی سی ڈی آر پولیس نے حاصل کر لی گئی ہے۔  سی ڈی آر سے پتہ چلایا جائے گا کہ اقرا کے کس کس سے رابطے تھے۔ اقرا کے موبائل نمبر کے ذریعے اسکے مبینہ قتل سے پچھلے دن کی لوکیشن بھی چیک کی جائے گی۔

لاہور پولیس کے مطابق مقدمہ میں نامزد عثمان نامی ملزم کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مقدمہ میں نامزد دو ملزمان نے عبوری ضمانتیں کروا رکھی ہیں۔

اقرا کا تاحال پوسٹ مارٹم بھی نہ کروایا جا سکا۔ مردہ خانے کے عملے کا کہنا ہے کہ اقرا کے لواحقین کے ڈیڈ ہاوس پہنچنے کے بعد ہی پوسٹ مارٹم کا عمل شروع کیا جائے گا۔پوسٹ مارٹم میں پتہ چلایا جائے گا کہ اقرا کی ہلاکے کی وجہ کیا بنی؟ ایف آئی ی آر کے مطابق اقرا کو شدید نشے کی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ملزمان اسپتال منتقل کرنے کے بعد موقع سے غائب ہو گئے تھے۔

پولیس ماڈل اقراء سعید کا موبائل فون ان لاک کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اقراء کے موبائل فون سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

پولیس کے مطابق  اقراء سعید لاہور میں حسن بٹ ، عثمان اور عمر نامی افراد کے ساتھ رابطے میں تھی۔ تینوں نوجوان گلشن راوی کے رہائشی ہیں۔ اقراء سعید نے مذکورہ افراد کے ساتھ آئس کا نشہ کیا ۔طبعیت خراب ہونے پر تینوں نوجوان اقراء سعید کو ہسپتال چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اقراء کی موت نشے کی زیادتی کے باعث ہوئی ہے۔اقراء سعید کے ساتھ زیادتی کے بارے میں حتمی رائے پوسٹمارٹم رپورٹ اور فرانزک لیب رپورٹ سے ہوگی۔

پولیس کے مطابق موبائل فون سے ملنے والی معلومات پر عثمان ، حسن اور عمر کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

لاہور پولیس کی تفتیش کے مطابق مقتولہ انڈر میٹرک اور تین سال سے شوبز میں تھی اور کچھ دن قبل بئی سے واپس آئی تھی۔

اقرا کے والد نے پولیس کو بتایا کہ لاہور میں اسکی کہاں اور کس کے پاس رہائش تھی کچھ معلوم نہیں ،دوسری نوکری کی تلاش بھی کررہی تھی ۔

بیٹی کو ناحق قتل کیا گیا ، غربت کے باعث قانونی کارروائی نہیں کرانا چاہتے۔

اقرا کی  ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی حتمی وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔ موت کی وجہ اور لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی یا نہیں جاننے کے لیے جسمانی اعضاء کے نمونے فرانزک سائنس ایجنسی بھجوا دیے گئے ہیں۔  پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کر دی ہے ۔

اقرا کے اہلخانہ اسکی میت لے کر کراچی روانہ ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:عبیرہ قتل کیس، ماڈل گرل عظمیٰ راؤ کو سزائے موت

یاد رہے اس سے قبل لاہور ہی میں عبیرہ نامی ماڈل کی لاش 13 جنوری 2015 کو لاہور کے علاقے شیرا کوٹ کے ایک بس اڈے پر موجود سوٹ کیس سے ملی تھی۔ مقتولہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ اور مسلم ٹاؤن ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے طوبیٰ عرف عظمیٰ راؤ کی شناخت ہوئی اور اسے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

عظمیٰ نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقتولہ عبیرہ اس کی دوست تھی اور اس کے گھر میں ہی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس کے تمام راز جانتی تھی۔

عظمیٰ نے دوران تفتیش اعتراف کیا تھا کہ اس نے اپنے شوہر بابر بٹ سے جان چھڑانے کے لیے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عبیرہ نے ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ عظمیٰ نے اپنے دوست فاروق اور حکیم ذیشان سے زہر منگوا کر عبیرہ کو کھلا دیا تھا۔

عبیرہ کے قتل میں ملوث ملزمان ماڈل گرل کو قتل کرکے اس کی لاش فریزرمیں بند کردی، اس سے قبل لاش بیگ میں ڈال کرٹرک اسٹینڈ پر پھینکنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق عبیرہ کے قتل میں اس کی سہیلی طوبی اپنے دو ساتھیوں ذیشان اورفاروق کے ساتھ ملوث تھی۔

تھانہ شیراکوٹ میں مرکزی ملزمہ عظمی راؤ، حکیم ذیشان اورحافظ فاروق کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں