گھوٹکی کی دو نومسلم بہنوں کو شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت


اسلام آباد ہائیکورٹ نے گھوٹکی کی دونومسلم بہنوں کوانکے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی۔

گھوٹکی کی دو نومسلم بہنوں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ سیکرٹری داخلہ کمیشن کے ارکان اور لڑکیوں کے والدین عدالت میں پیش ہوئے ۔

ہندو کونسل کے رہنما اور رکن اسمبلی رمیش کمار عدالت میں پیش ہوئے اور کہاآپ نے جو کچھ کیا اس کے لئے آپ کا شکریہ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ شکریہ ادا نہ کریں ہر شہری کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔آپ تو حکمراں جماعت سے ہیں۔

رمیش کمار نے کہا میں نے اسمبلی میں بھی بل پیش کئے تھے،مجھے نہیں لگتا ان بلوں پر بھی کچھ ہو گا

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اب اکثریتی جماعت کا رکن یہاں کہے گا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا ؟مجھے شرمندگی ہوتی ہے جب کوئی رکن پارلیمنٹ عدالتوں سے آکر مدد مانگے ،اکثریتی جماعت اب یہ کہے گی پارلیمنٹ بے بس ہے ، عدالت احکامات دے؟

سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر کمیشن تشکیل دیا گیا اس حوالے سے  4 اپریل کو میٹنگ ہوئی۔ پہلی میٹنگ میں 2 ممبران کے علاوہ دیگر نے شرکت کی۔فیصلہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری دوسری خاتون ممبر سمیت لڑکیوں سے ملیں گی۔آئی اے  رحمان اور میں دونوں لڑکوں سے ملیں گے اور رائے بنائی جائے گی۔

سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ چیف سیکرٹری سندھ نے اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے۔بظاہر یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں لگتا۔میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق آسیہ کی عمر 19 اور نادیہ کی عمر 18 سال ہے۔لڑکیوں نے زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا۔مذہب تبدیلی میں لڑکیوں کی مدد ضرور کی گئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ لڑکیوں کے بیان کے بعد اس تمام کارروائی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔انکوائری اس لیے کرائی گئی کہ والدین کی تسلی ہو جائے۔معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری اس لیے کرائی کہ دنیا جان جائے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:سندھ سے مبینہ گمشدہ ہندو لڑکیوں کا قبول اسلام کے بعد نکاح

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات طے ہوچکی کہ زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا۔ ان دو لڑکیوں کی حد تک معاملہ واضح ہے کہ مذہب زبردستی تبدیل نہیں ہوا۔عدالت دونوں لڑکیوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے رہی ہے۔
یاد رہے 24مارچ کو خبر آئی تھی کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل  ڈہرکی سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونےوالی  ہندو لڑکیوں نے قبول اسلام کے بعد نکاح کرلیا ہے۔

ذرائع کے مطابق روینا اور رینا نے قبول اسلام کے بعد نکاح کئے تھے، لڑکیوں نے تحفظ کے لئے عدالت عالیہ بہاولپور سے بھی رجوع کیا تھا۔

لڑکیوں اور انکے شوہروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کوبھی تحفظ کے لیے درخواست دی تھی ۔

اسلام آبادہائیکورٹ نے 26مارچ کو سماعت کے بعد فیصلے میں لکھا کہ  نومسلم نادیہ اور آسیہ نے پسنداکی شادی کے بعد اپنے شوہروں کے ہمراہ تحفظ کی درخواست دائر کی۔ دو بہنوں کے قبول اسلام نے سندھ میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے تنازعے کو جنم دیا۔ پاکستان کی ساڑھے تین فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ دونوں لڑکیوں کو شہید بے نظیر بھٹو ویمن کرائسز سنٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر مبینہ مغوی لڑکیاں سرکاری تحویل میں

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی جی ہیومن رائٹس کی نگرانی میں لڑکیوں کو ویمن کرائسز سنٹر منتقل کرنے کی ہدایت کی ۔
عدالتی فیصلے  کے مطابق  مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر کسی بھی شخص کو لڑکیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہو گی۔ مجسٹریٹ سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ بھی طلب کی گئی ۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی ہندو لڑکیوں کی گمشدگی کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔عمران خان نے سندھ اور پنجاب کو اس معاملے پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے اور بالخصوص سندھ حکومت کو کہا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں


متعلقہ خبریں