انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں، چیف جسٹس



اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں ہے، جب سے جج بنا ہوں انصاف کی فوری فراہمی میری پہلی ترجیح ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں سے انصاف کی فوری فراہمی پر توجہ نہیں دی گئی۔ جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا جب کہ ہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا۔

انہوں  نے کہاہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا۔ملک میں مجموعی طور پر تین ہزار ججز ہیں۔گزشتہ سال عدالتوں نے 34 لاکھ مقدمات نمٹائے۔
اسکے برعکس امریکی سپریم کورٹ سال میں 80 سے 90 مقدمات نمٹاتی ہےاور برطانوی سپریم کورٹ سالانہ 100 مقدمات کے فیصلے کرتی ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 26 ہزار مقدمات نمٹائے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 26 ہزار مقدمات نمٹائے،چیف جسٹس پاکستان

انہوں نے کہا جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں۔بار میں وکلاء مجھے اور ساتھی ججز کو جنون گروپ کہتے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرے،ماضی میں فیصلوں میں تاخیر کم کرنے کیلئے کئی تجربات کیے گئےکبھی قانون میں ترمیم کبھی ڈو مور کی تجویز دی گئی ججز کو ڈو مور کا نہیں نہ سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کو کم کرنا ہے۔ قانون کہتا ہے فوجداری کیس کی تحقیقات دو ہفتے میں مکمل ہوں۔ دو ہفتے میں تفتیش مکمل کرکے چالان جمع کرانا لازمی ہے۔چالان جمع ہونے کے بعد عدالت کا کام ہے کیس کا شیڈیول بنائے۔ برطانیہ میں آج بھی کیس دائر کریں تو سال بعد کی تاریخ ملتی ہے۔
برطانیہ میں جب کیس لگ جائے تو پھر التواء نہیں دیا جاتا۔ٹرائل کورٹ میں التواء کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا ماڈل کورٹس میں گواہان پیش کرنے میں پولیس کا تعاون مثالی ہے۔ ملزمان کی عدم پیشی پر جیل حکام کیخلاف کارروائی ہوگی۔ آئی جیل خانہ جات پریزن وینز کی موجودگی اور ملزمان کی پیشی یقینی بنائیں۔ ماڈل کورٹس میں ملزمان کی عدم پیشی  کو یقینی بنائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ  فرانزک لیب ماہرین بھی عدلیہ کیساتھ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ سماعت سے پہلے تمام متعلقہ مواد عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔تاخیر کو ٹارگٹ کرکے ختم کرنا ہے۔مقدمات کے فوری فیصلے کرنے والوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ پولیس کی طرف سے گواہوں کی پیشی کو یقینی بنایا جائے۔ مقدمات کا وقت مقرر کرنے سے انصاف کا حصول آسان ہو گا جب کہ برطانیہ اور دیگر ملکوں میں مقدمے کے فیصلوں کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے۔

ملزمان کی عدالتوں میں پیشی کو یقینی بنایا ریاست کی ذمہ داری ہے، چیف جسٹس

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوری انصاف کے لیے مقدمات کی رپورٹس کو پیش کرنا ضروری ہے، مقدمہ میں کسی وجہ سے استغاثہ کے پیش نہ ہونے پر متبادل انتظام کیا جائے گا اور اگر کسی وجہ سے وکیل پیش نہ ہوا تو جونیئر مقرر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم،فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے،چیف جسٹس پاکستان

انہوں نے کہا کہ  ماڈل کورٹس کا قیام ایک مشن کے تحت کیا گیا۔ مقدما ت کا التوا ختم کرنے کے لیے ہرممکن اقدام کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی قوانین میں انسانی حقوق کو مدنظر رکھا جاتا ہے، عدالتی قوانین واضح ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے جب کہ مقدمات کی پیروی کے لیے دستاویزات کے حصول کے لیے عوام کو دفتروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کا ڈیم صرف مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر تک محدود نہیں ہے بلکہ چیف جسٹس فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ عدلیہ کو زیرالتواء مقدمات کا بوجھ ورثے میں ملا اور زیر التواء مقدمات کے خلاف ڈیم بہت ضروری تھا۔ ہمیں عدالت کے اصل اسٹیک ہولڈر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہو گا جب کہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کریمنل جسٹس سسٹم پر بہتر کام کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں