فضل الرحمان اپوزیشن کو کسی حد تک قریب لانے میں کامیاب

عمران خان کے پاس مستعفی ہونے کیلئے دو دن ہیں، فضل الرحمان

فائل فوٹو


اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کو کسی حد تک قریب لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے حکومت مخالف سرگرمیوں کے رہنما اصول وضع کرنے پر متفق ہوگئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ بڑی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ ان کے نمائندوں کی بھی مولانا سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اپوزیشن قائدین متفق ہیں کہ حکومت کے خلاف کوئی غیر آئینی حربہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت مخالف سرگرمیوں کا آغاز پارلیمان سے ہوگا جہاں اپوزیشن اور حامی ارکان کی عددی قوت کا تعین کیا جائے گا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومتی اتحادیوں سے بھی پس پردہ رابطے کئے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: فضل الرحمان-زرداری ملاقات: ’کپتان کو اب گھر جانا ہوگا‘

اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس کے دوران انہوں نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ کی عیادت کی۔

آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ایک ہفتے میں یہ دوسری ملاقات تھی۔

10 اپریل کو ہونے والی ملاقات کے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف تحریک چلانے سے متعلق مشاورت کی۔

بتایا گیا کہ فضل الرحمان نے اپنی نواز شریف سے ملاقات کی تفصیلات سے آصف زرداری کو آگاہ کیا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام اور نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد سے متعلق امور پر بھی غور کیا گیا۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہماری معمول کی ملاقات تھی، ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر بات ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کھانے کی دعوت پر آیا تھا، سابق وزیراعظم نوازشریف سے بھی ملاقات ہوئی تھی، ملاقات میں مجموعی صورت حال پر بات چیت ہوئی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جعلی حکمرانوں سے قوم کو نجات دلائیں گے، جب بھی کوئی فیصلہ ہوا تو آپ کو ضرور آگاہ کریں گے۔

اس موقع پر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف پوزیشن لیں، اگر ہم نے لیڈ نہ لی تو کوئی اور پارٹی آکر لیڈ لے جائے گی، کپتان کو اب گھر جانا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فضل الرحمان اور ہمارا سیاست پر سوچ اور نظریہ ایک ہی ہے۔


متعلقہ خبریں