طالبان کا قطر مذاکرات میں خواتین کو بھی شریک کرنے کا اعلان

طالبان کا قطر مذاکرات میں خواتین کو بھی شریک کرنے کا اعلان

کابل: طالبان نے قطر مذاکرات میں خواتین کو بھی شریک کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق طالبان کے اس فیصلے کے بعد خواتین کو پہلی مرتبہ مذاکراتی عمل میں نمائندگی ملے گی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ترجمان طالبان نے کہا ہے کہ رواں ماہ قطر میں ہونےوالے مذاکرات میں پہلی مرتبہ طالبان کے وفد میں خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات میں امریکی حکام اور افغان رہنما شریک ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق طالبان نے ہمیشہ خواتین سے متعلق ایک سخت رویہ رواں رکھا لیکن اب اس معاملے میں ان کی جانب سے لچک دیکھنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ طالبان بھی افغانستان میں 17 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ، طالبان مذاکرات:امریکی انخلا پر معاہدے کا ڈرافٹ تیار

رائٹرز کے مطابق  ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹیلی فونک پیغام کے ذریعے  اس بات کا اعلان کیا کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے دفد میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ترجمان طالبا ن نے مذاکرات میں شریک ہونے والی خواتین کے نام نہیں بتائے گئےتاہم یہ بتایا کہ خواتین مذاکرات کاروں کا سنئیر طالبان رہنماؤں سے کوئی خاندانی تعلق نہیں، یہ خواتین افغانستان کے اندر اور باہر طالبان کے ساتھ مل کر کوشش کرتی رہیں۔

مذاکرات کاروں کا طالبان کی جانب سے کیے گئے اعلان کا خیر مقدم

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ طالبان مذاکرات کا اگلا راؤنڈ 19 اپریل 2019 سے شروع ہوگا اور 21 اپریل 2019 تک جاری رہے گا۔

ان مذاکرات میں امریکی حکام، افغان سیاست دان اور سول سوسائٹی کے حکام شامل ہوں گے۔

رائٹرز کے مطابق ترجمان طالبان نے یہ بھی کہا کہ طالبان گروپ میں تبدیلی آئی ہے اور اب وہ اسلامی شریعت کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے نے بتایا کہ دوسرے مذاکرات کاروں نے طالبان کی جانب سے کیے گئے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ ماسکو میں ہونے والے گزشتہ مذاکرتی عمل میں شامل ایک مذاکرات کار نے کہا کہ طالبان کے وفد میں خواتین کا شامل ہونا ایک احسن اقدام ہے۔

 افغان امن مذاکرات میں خواتین کی شرکت لازمی ہونی چاہیئے،نجلیناجولی

دوسری جانب امریکی اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی مندوب انجیلینا جولی نے کہا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں خواتین کی شرکت لازمی ہونی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بنایا گیا تو افغانستان میں استحکام کی آخری امید بھی دم توڑ دے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ افغان خواتین اپنے حقوق کے لیے بولنے کا حق رکھتی ہیں اور اپنی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

طالبان امریکہ امن مذاکرات

طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے اور اس کے کیے دور بھی ہوچکے ہیں۔

پاکستان نے بھی ان مذاکرات میں طالبان کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

ایک موقع پر روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے افغان امن مذاکرات میں پیش رفت اس وقت رک گئی تھی جب طالبان نے افغان حکومت سے براہ رست مذاکرات نا کرنے کا اعلان کر دیا تھا تاہم بعد ازں اس معاملے وک حل کرلیا گیا۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹرعمرزاخیلوال نے کہا تھا کہ قومی اتفاق رائے، اتحاد اور شفافیت پر مبنی انٹرا افغان ڈائیلاگ سے افغانستان میں امن ممکن ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ میں افغان سفیر نے کہا تھا کہ اس قسم کے مذاکرات کا موقع موجود ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کیلئے کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔

واضح رہے افغانستان میں 1990 کی افغان روس جنگ کے بعد سے افغانستان کے حالات عدم استحکام کا شکار ہی رہے جبکہ طویل عرصے یعنی 1990 کے بعد سے لے کر 2002 کے امریکی حملے تک افغانستان میں طالبان کی حکمرانی رہی۔


متعلقہ خبریں