کئی  نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، چیف جسٹس پاکستان

سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم ، فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کئی  نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے۔کسی کے جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر اعتراض نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کیا 5 فیصد اضافہ منافع کو روک رہا ہے؟آڈٹ رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے اسکولز کا منافع بڑھ رہا ہے۔نجی اسکولز پھیلتے جارہے ہیں۔

نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت  چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اسکول رجسٹریشن کیلئے فیس اسٹرکچر دینا لازمی ہے۔ رجسٹریشن کے وقت داخلہ فیس، سیکیورٹی ڈیپازٹ اور ٹیوشن فیس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اسکولوں میں ایک ہی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ نجی اسکول ہر سہولت کی الگ فیس وصول کرتے ہیں۔نجی اسکولوں کی کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ پیسہ بنایا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا لائسنس کی تجدید کے وقت پورا فیس اسٹرکچر تبدیل ہوسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا فیس اسٹرکچر کی منظوری مجاز اتھارٹی انسپکشن کے بعد دیتی ہے۔ عدالت نے کل سالانہ 5 فیصد اضافے کی تجویز دی ۔ لگتا ہے نجی اسکول مالکان عدالت کی تجویز سے متفق نہیں ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا 5 فیصد اضافہ بھی مجاز اتھارٹی کی منظوری سے مشروط ہے۔

کئی اسکلولز نے نئی عمارت کے پیسے بھی طلبہ سے لیے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ گھروں میں قائم کئی اسکلولز نے نئی عمارت کے پیسے بھی طلبہ سے لیے۔کھیلوں کے میدان بنانے کے پیسے بچوں سے نہیں لیے جاسکتے۔داخلے کے لیے اپلائی کرنے کی مد میں ہی نجی اسکول کروڑوں کما لیتے ہیں۔ بچہ داخل ہو یہ نہ ہو اسکلولز کی کمائی ہوجاتی ہے۔ان حالات میں یہ کہنا کہ 5 فیصد اضافہ غیر مناسب ہے غلط ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی اسکول نقصان میں نہیں جارہا۔کئی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے۔کسی کے جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر اعتراض نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کیا 5 فیصد اضافہ منافع کو روک رہا ہے؟آڈٹ رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے اسکولز کا منافع بڑھ رہا ہے۔نجی اسکولز پھیلتے جارہے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ  اگر نجی اسکولوں کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ دیتی تو حالات یہ نہ ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا پہلے نجی اسکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری اسکولوں سے متعلق بھی حکومت سے پوچھیں گے۔سرکاری اسکولوں کی حالت تو ابتر ہے۔حکومت نے سرکاری اسکولوں پر کوئی توجہ نہ دی،سرکار کو اس کا جواب دینا ہو گا۔ تعلیم،تعلیم اور تعلیم ہی سرکار کا مقصد ہونا چاہیے۔حکومت کو چاہئے سارے فنڈز کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دے۔سر سید احمد خان نے کہا تھا تعلیم پر توجہ دو۔ تعلیم پر توجہ نہ دی تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

ہم لوگوں کو پیسہ کمانے سے روک نہیں سکتے، چیف جسٹس پاکستان 

سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرائیویٹ اسکولز والے سالانہ داخلے کی مد میں تین سو ملین سے پانچ سو ملین روپے کما لیتے ہیں۔تین سو سے پانچ سو ملین روپے کی یہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ اسکول داخلے کو قبول کرنے والوں سے الگ فیس لی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پرائیوٹ اسکولز کے منافع میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیے کہ  پرائیوٹ اسکولز کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔کسی اسکول کی پہلے پچاس شاخیں تھی وہ سو یا ڈیڑھ سو ہوچکی ہیں۔

پرائیویٹ اسکولز والوں نے اپنی سیمنٹ فیکٹریاں لگانا شروع کردی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ  کراچی فوربیل اسکول کے سالانہ منافع میں 256 فیصد اضافہ ہوا۔بیکن ہاؤس اسکول کو سالانہ 32.5فیصد،لاہور گرامر کو چالیس فیصد منافع ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم لوگوں کو پیسہ کمانے سے روک نہیں سکتے۔انہوں نے استفسار کیا کیا کسی آڈٹ رپورٹ میں کسی پرائیوٹ اسکول کو نقصان ہونے کا ذکر کیا گیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سٹی اسکول کو سالانہ 36 فیصد، گرامر اسکول کو 26 فیصد لرننگ الائنس کو 36 فیصد منافع ہوا۔بیکن ہاؤس کو سالانہ ایک اشاریہ چار بلین روپے کا منافع ہوا۔ایک اشاریہ چار بلین ہزار کروڑ سے زائد بنتے ہیں۔پرائیویٹ اسکولز والوں نے اپنی سیمنٹ فیکٹریاں لگانا شروع کردی ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔

17اپریل کی سماعت کا احوال 

لاہور ہائیکورٹ  کے فیصلے پر پنجاب حکومت کے وکیل نے دلائل گزشتہ روز یعنی 17اپریل کو دیے ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تضادات سے بھرا ہوا ہے،ہائیکورٹ نے ایک جملے میں کہا اسکول فیسوں میں اضافہ ہو سکتا ہے،دوسرے جملے میں ہی کہہ دیا فیسوں میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔

نجی اسکولز کی فیسں:لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تضادات سے بھرا ہے، سپریم کورٹ

چیف جسٹس پاکستان نے کہا حتمی طورپر ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ فیسوں میں اضافے سے صرف دو فیصد بچے متاثر ہونے کے باعث اضافہ نہیں ہو سکتا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائیکورٹ کہتی دو فیصد بچے متاثر ہونے کے باعث فیسوں کے اضافے میں فرق نہیں پڑتا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا رمضان میں حکومت اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرتی ہے۔اگر قیمتوں کا کنٹرول جائز قرار دیا تو پھر وکیلوں کی فیسوں پر بھی اصول لاگو ہو سکتا ہے۔اگر قیمتوں کا کنٹرول ناجائز قرار دیا تو پھر اشیاء خوردونوش بھی کنٹرول نہیں ہو سکیں گی۔

ہائیکورٹ کے فیصلے میں غلطیوں سے لگتا ہے سارا قصور انگریزی کا ہے، جسٹس کھوسہ

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں بہت سی غلطیاں ہیں۔ لگتا ہے غلطیوں میں سارا قصور انگریزی کا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا فیصلے میں آ رٹیکل 10 اے کا بھی ذکر ہے۔آرٹیکل 10 اے کا اطلاق صرف ٹرائل کیلئے ہوتا ہے ہر جگہ نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی طور پر فیسوں میں اضافہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس فیس مقرر کرنے کا نہیں تھا،فیس میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی حد مقرر کرنا خلاف آئین نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سال 2015 سے پہلے نجی اسکولز مرضی سے فیس میں اضافہ کرتے تھے۔پنجاب حکومت نے قانون سازی کرکے پانچ فیصد اضافے کی اجازت دی۔
قانون کے مطابق پانچ فیصد سے زائد اضافہ بلاجواز نہیں ہو سکتا۔ہائی کورٹ نے پانچ فیصد تک اضافے کی پابندی کو خلاف آئین قرار دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں نجی اسکولز کی رجسٹریشن تین سال کیلئے ہوتی ہے۔رجسٹریشن کی تجدید کے وقت فیس اسٹرکچر پر بھی نظرثانی ہوتی ہے۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا پنجاب میں بھی تجدید کے وقت فیس سٹرکچر پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کیا تجدید کے وقت فیس اسٹرکچر پر نظرثانی کی تشریح فریقین کیلئے قابل قبول ہوگی؟ فیس میں پانچ فیصد سے زائد اضافہ لائسنس کی تجدید کے وقت ہوگا؟

نجی اسکول کے وکیل نے کہا 2020 میں گیس کی قیمت 80 فیصد تک بڑھ جائے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا گیس کی قیمت بڑھنے سے اسکول فیس میں 80 فیصد اضافہ نہیں ہوتا۔

نجی اسکول کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فیصد سے زیادہ اضافے کی اجازت ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نجی اسکولز کو فیس میں اضافے کا لامحدود اختیار نہیں دے سکتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فیس میں اضافے کی شرح کم سے کم ہونی چاہیے۔پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ چاہیے تو مجاز اتھارٹی کو جواز پیش کریں۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق نجی اسکولز بہت زیادہ منافع لیتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا قانون میں سقم ہے تو پارلیمنٹ سے تبدیل کروا لیں۔

نجی اسکول کے وکیل نے کہا افراط زر کی شرح میں تاریخ کا بلند ترین اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں اسکولوں فیسوں میں اضافے پر پابندی عائد کرنا کیا درست ہوگا؟

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے،تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ والدین کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ایسی صورتحال میں والدین پر اتنا بوجھ کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟

نجی اسکول کے وکیل نےاستدعا کی کہ  ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت کو معقول اضافے کی اجازت دینی چاہیئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت اسی بات پر غور کر رہی ہے کہ ان حالات میں معقولیت کیا ہوگی؟اگر ایک سکول پانچ سال بعد اسٹرکچر تبدیل کرنا چاہے تو اس کے لیے کیا ضروریات ہیں؟ بظاہر ان قوانین کے پیچھے ایک اسکیم موجود ہے جسے ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تین سال تک 8 فیصد سالانہ کے حساب سے 24 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ تین سال بعد مزید اضافہ کے لیے اتھارٹی کو مطمئن کریں،۔ آپ کی یہ دلیل کہ نجی سکول پانچ فیصد اضافہ کے پابند ہیں ٹھیک نہیں ہے۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔

16اپریل کی سماعت کا احوال 

یاد رہے گزشتہ روز اسی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ اب سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر نہیں رہا۔ سرکاری اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں۔ سرکار کی وجہ سے ہی آج لوگ پریشان ہیں۔

والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے والدین کے حق میں فیصلہ دیا اور ہائی کورٹ نے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر فیس میں اضافہ غیر قانونی قرار دیا۔

سرکار کی وجہ سے ہی آج لوگ پریشان ہیں، چیف جسٹس پاکستان

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں سالانہ 5 فیصد اضافے کی اجازت دی تھی جو مناسب ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ 5 فیصد اضافہ مناسب ہے یہ تعین کس بنیاد پر ہوا ؟

والدین کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ مجاز اتھارٹی کے رولز میں 5 فیصد اضافہ مناسب قرار دیا گیا جب کہ ہائی کورٹ نے سالانہ پانچ فیصد اضافے کی حد مقرر کی اور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ نجی کاروبار پر حکومت مناسب پابندیاں لگا سکتی ہے۔

فیصل صدیقی عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جس میں تعلیم کو کاروبار قرار دیا گیا جب کہ بھارتی عدالتوں نے تعلیم کو کاروبار نہیں پیشہ قرار دیا ہے۔

 کیا نجی کاروبار میں بنیادی حقوق کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟جسٹس کھوسہ

فییصل صدیقی نے کہا کہ تعلیم بنیادی آئینی حق ہے جب کہ چند لوگوں کے مفاد کے لیے معاشرے کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ آئین میں بنیادی حقوق کے باب میں بچوں کا خصوصی ذکر ہے اور تعلیم کا بنیادی حق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں عدالت نے نجی اسکولز کو موسم گرما کی فیس وصولی سے روک دیا

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ کئی سرکاری اسکولوں میں تو اساتذہ ہی نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تعلیم اور صحت کبھی بھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہے جب کہ نجی اسکولوں کے بچوں کو اچھی تعلیم اور نوکریاں ملتی ہیں اور نجی اور سرکاری اسکولوں کے درمیان معیار کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نجی اسکول بند ہوئے تو تعلیمی نظام ہی بیٹھ جائے گا تاہم نجی اسکولوں میں مستحق طلبہ کے لیے کوٹہ بھی مقرر ہو سکتا ہے اور نجی اسکولوں کو جائز منافع لینے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔

والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ نجی اسکولوں پر غیر ضروری پابندیاں لگانے کے حق میں نہیں ہیں، نجی اسکول منافع ضرور کمائیں لیکن استحصال نہیں ہونا چاہیے۔

فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم معاملہ پر تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے سرکار کی بڑی بھاری زمہ داری ہے۔ یہ سارا معاملہ سرکار کی وجہ سے ہے اور سرکار کی وجہ سے ہی آج لوگ پریشان ہیں جب کہ ہم نے سرکار سے اس حوالے سے بہت کچھ پوچھنا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں گلی محلوں میں قائم سرکاری اسکولوں کے اعداد و شمار چاہیں جب کہ یہ بھی بتایا جائے گلی محلوں میں کتنے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ ہیں کیونکہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم،فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے،چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سرکاری وکلاء مقدمہ کے حوالے سے بھر پور تیاری کر کے آئیں، میں سرکاری اسکول کا پڑھا ہوا ہوں لیکن اب سرکاری اسکولوں کا وہ معیار نہیں رہا اور اب مجھ جیسے چھوٹے شہروں کے بچوں کو وہ مواقع نہیں ملتے۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنے سے لوگ با ادب ہوتے تھے۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔


متعلقہ خبریں