بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے پولنگ مکمل

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات : پولنگ کا آغاز ہوگیا

نئی دہلی: بھارت میں لوک سبھا انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہوگئی۔ قواعد و ضوابط کے مطابق پولنگ کا عمل صبح سات بجے شروع ہو کر شام چھ بجے تک جاری رہا۔

بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق لوک سبھا کے منعقد ہونے والے دوسرے انتخابی مرحلے میں 13 ریاستوں کی 97 لوک سبھا نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے ۔

مقبوضہ وادی کشمیر کے دو حلقوں میں بھی آج ووٹنگ ہوئی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق آل پارٹیز حریت کانفرنس نے آج منعقد ہونے والے انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کریں۔

لوک سبھا کے انتخابات میں 90 کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اعداد و شمار کے مطابق ووٹرز کی اتنی بڑی تعداد امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

قواعد و ضوابط کے تحت بھارت میں لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لیے مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

لوک سبھا کے انتخابات کا اب تک  دو مرحلے مکمل ہوگئے جس میں دوران ووٹنگ پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔

بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخابات قواعد و ضوابط کے مطابق سات مراحل میں مکمل ہوں گے۔ انتخابی نتائج کا اعلان بھارتی الیکشن کمیشن 25 مئی کو کرے گا۔

بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق انتخابی عمل پر 6.5 امریکی ڈالرز کے اخراجات کا تخمینہ ہے۔

لوک سبھا کے انتخابات کا پہلا مرحلہ گیارہ اپریل کو ہوا تھا جس میں 20 ریاستوں کی 91 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی تھی۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 14 کروڑ 20 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سری نگر پارلیمانی حلقے کے تحت آنے والے وسطی مقبوضہ کشمیر کے تین اضلاع سری نگر، بڈگام اور گاندربل میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

مقبوضہ وادی چنار کے چھ اضلاع پر مشتمل ادھم پور پارلیمانی نشست کے لئے بھی ووٹنگ ہونی ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت اور انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج سری نگر پارلیمانی حلقے میں تشدد سے پاک انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔

بھارت کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے میڈیا کا کہنا ہے کہ پرامن پولنگ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن سرکار نے اس ضمن میں تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت کی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی سرکار کی جانب سے یہ دعویٰ ضرور سامنے آیا ہے کہ اس مرتبہ ہونے والے انتخابات میں 2017 جیسے حالات رونما نہیں ہوں گے۔

مقبوضہ کشمیر کے علاقے سری نگر کی پارلیمانی نشست پر 9 اپریل 2017 کو ہونے والے ضمنی انتخابات شدید جھڑپوں اور کم ترین ووٹنگ کی نذر ہوگئے تھے۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے اس رپورٹ دی تھی کہ پولنگ کے دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 9 شہری جاں بحق اور 150 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس وقت تسلیم کیا تھا کہ ہونے والی پولنگ کی شرح محض سات فیصد رہی تھی۔

ضمنی انتخابات کو اس حوالے سے بھی ’عالمگیر‘ شہرت حاصل ہوئی تھی کہ ایک بھارتی فوجی افسرکا مکروہ چہرہ اس طرح سامنے آیا تھا کہ اس نے ایک عام کشمیری نوجوان کو اپنی اور اپنی سپاہ کی ڈھال کے طور پر جیپ کے ساتھ باندھ لیا تھا۔

بھارتی قابض فوج کے میجر لیٹول گوگوئی نے فاروق احمد ڈار جو کہ ضلع بڈگام کے ژھل براس آری زال بیروہ کا رہنے والا ہے، کو پولنگ کے دوران انسانی ڈھال بنا کر اپنی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر گاؤں و دیہاتوں میں گھمایا تھا۔

بھارت کے میڈیا میں اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ میجر گوگوئی نے فاروق کو اپنی گاڑیوں کو ہونے والے ممکنہ پتھراؤ سے بچانے کے لیے جیپ کے بونٹ پر باندھ لیا تھا۔

فاروق احمد ڈار کے متعلق خود بھارتی ذرائع ابلاغ نے تسلیم کیا تھا کہ وہ انتخابات کا مخالف نہیں تھا اور اس نے اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کیا تھا۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سری نگر پارلیمانی حلقہ انتخاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 لاکھ 95 ہزار 304 ہے۔ اس حلقے میں 12 انتخابی امیدواران کے درمیان مقابلہ ہے لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق اصل میدان نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، پیپلز کانفرنس کےعرفان رضا انصاری اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے آغا سید محسن کے درمیان لگے گا۔

2017 کے ضمنی انتخابات میں یہ نشست فاروق عبداللہ نے جیتی تھی اورآج بھی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس نشست پر مضبوط امیدوار قرار دیے جارہے ہین۔

ادھم پور پارلیمانی حلقہ انتخاب میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 16 لاکھ 85 ہزار 779 ہے۔ یہاں بھی 12 انتخابی امیدوار میدان میں ہیں۔

خطہ جموں کے چھ اضلاع ادھم پور، کٹھوعہ، ریاسی، کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن پر پھیلے اس حلقے میں اصل مقابلہ بی جے پی کے ڈاکٹر جتیندر سنگھ، کانگریس کے وکرم ادتیہ سنگھ ، ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن کے چوہدری لال سنگھ اور نیشنل پنتھرس پارٹی کے ہرش دیو سنگھ کے درمیان ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق جتیندر سنگھ اور وکرم ادتیہ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں یہ نشست ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے جیتی تھی جنہوں نے سینئر کانگریسی لیڈر غلام نبی آزاد کو 60 ہزاروں ووٹوں سے ہرایا تھا۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق سری نگر اور ادھم پور میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 29 لاکھ 81 ہزار 83 ہے۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد 15 لاکھ 43 ہزار 571 اور خواتین ووٹروں کی تعداد 14 لاکھ 63 ہزار 387 ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہاں خواجہ سرا ووٹروں کی تعداد 69 ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے دونوں حلقوں میں مجموعی طورپر چار ہزار 426 پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والی ممتاز فلمی اداکار شترو گھن سنہا کی اہلیہ اور معروف فلمی اداکارہ سونا کشی سنہا کی والدہ پونم سنہا لکھنؤ کی پارلیمانی نشست پر انتخابی امیدوار بن گئی ہیں۔

پونم سنہا کا انتخابی میدان میں مقابلہ ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ہوگا۔

بھارت کی پارلیمانی تاریخ بتاتی ہے کہ لکھنؤ کی پارلیمانی نشست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ہمیشہ سے نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے۔

بی جے پی کی جانب سے اس نشست پر سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی بھی انتخاب میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

کانگریس نے اس نشست پر آچاریہ پرمود کرشنم کو انتخابی ٹکٹ دیا ہے لیکن بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اندرون خانہ کانگریس پر دباؤ ہے کہ وہ یہاں سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہ کرے۔

بھارت کے اردو ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ سونا کشی کی والدہ پونم سنہا کی وجہ سے کانگریس اپنا انتخابی امیدوار دستبردار کرالے۔ ایسی صورتحال میں کانگریس پرمود کرشنم کو کسی اورنشست سے اپنا امیدوار بنا سکتی ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ پونم سنہا کے خاوند اور ممتاز فلمی اداکار شترو گھن سنہا نے بھی حال ہی میں بی جے پی سے علیحدگی اختیار کرکے کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔

حالیہ انتخابات میں شترو گھن سنہا بہار کی پٹنہ صاحب نشست پہ کانگریس کی جانب سے انتخابی امیدوار ہیں۔

بھارتی انتخابات کے حوالے سے یہ خبر بھی عالمی توجہ کا مرکز بنی ہے کہ ممبئی کے کھارعلاقہ میں بھارتی الیکشن کمیشن کی ٹیم نے چھاپہ مارکر ایک نجی کمپنی سے کروڑوں روپے مالیت کا بی جے پی کا تشہیری مواد برآمد کرلیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کھار پولس اسٹیشن میں اس کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس سے تشہیری مواد برآمد ہوا ہے۔

کمپنی کا نام ’یونائیٹڈ فاسفورس لمیٹڈ‘ بتایا جاتا ہے اور اطلاعات کے مطابق اس کمپنی کے ڈائریکٹر مرکزی وزیر پیوش گوئیل کے بھائی ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کانگریس رہنما کی نشاندہی پر 9 اپریل کو کی گئی چھاپہ مارکارروائی میں برآمد ہونے والے تشہیری مواد میں بڑے پیمانے پر سرجیکل اسٹرائیک اور فضائیہ کے نام کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔

میڈیا کے مطابق چھاپہ مارکارروائی میں ایک خصوصی کتابچہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کے ساتھ ڈیوائس بھی ملی ہے۔ ڈیوائس میں مودی کی آواز ہے جو فوج اور پاکستان میں کی گئی نام نہاد اور جھوٹی اسٹرائیک کے نام پر لوگوں سے ووٹ دینے کی اپیل کرتے سنے جا سکتے ہیں۔

چھاپہ مار کارروائی میں خصوصی قسم کے الیکٹرانک کارڈز بھی برآمد ہوئے ہیں جن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی آواز میں انتخابی پیغامات ریکارڈ ہیں۔

میڈیا کے مطابق انتخابی کمیشن کی ٹیم کی طرف سے ضبط کئے گئے مواد کی قیمت چھ کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔

بھارت میں کہا جارہا ہے کہ جس دفتر میں چھاپہ مارکارروائی کی گئی ہے وہ بی جے پی کی تشہیر کے لئے کا کال سینٹر کی طرز کا کام کر رہا تھا۔

اس سینٹر پر 50 سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں اور لوگوں کو کال کر کے انہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی سرجیکل اسٹرائیک والی ریکارڈیڈ آڈیو سناتے ہیں۔

کال سینٹر کے ملازمین لوگوں کے ایڈریسز پر مودی کی آواز میں فوجی وقار اور پاکستان پر ایئر اسٹرائیک کے نام پر ووٹ دینے کی اپیل کا خصوصی کتابچہ بھی پوسٹ کرتے ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس ضمن میں باقاعدہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ مقدمہ تو درج ہو گیا ہے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب الیکشن کمیشن کیا قدم اٹھائے گا؟

بھارتی الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو فوج کے نام پر سیاست کرنے کے حوالے سے سخت ہدایات دی تھیں۔

بھارت میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اورحزب اختلاف کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ ایشوز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے اب تک کی انتخابی مہم میں پاکستان، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے مسائل اجاگر کیے ہیں جب کہ حزب اختلاف نے مہنگائی، بے روزگاری، وعدوں کی عدم تکمیل، نوٹ بندی اور یکساں ٹیکس نظام سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔

بھارت کے عام انتخابات میں حصہ لینے والے انتخابی امیدواران کے متعلق غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ 427 امیدواران ایسے ہیں جن کے اثاثے ایک کروڑ روپے اور یا اس سے زائد ہیں۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹ ریفارمز(اے ڈی آر) کے مطابق انتخابات کے دوسرے مرحلے میں شریک امیدواروں کے اوسط اثاثے تین کروڑ 90 لاکھ روپے بنتے ہیں۔

اے ڈی آر نے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے 1644 امیدواروں میں سے 1590 امیدواران کے ظاہر کردہ اثاثوں کی چھان بین کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس حوالے سے اے ڈی آر کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق گیارہ فیصد انتخابی امیدواران ایسے ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت پانچ کروڑ روپے یا اس سے زائد ہے۔ انتخابی عمل میں شریک 41 فیصد امیدواران ایسے ہیں جن کے اثاثے دس لاکھ روپے یا اس سے کم ہیں۔

اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 1590 امیدواروں میں سے 209 کا تعلق قومی اور 107 کا تعلق ریاستی جماعتوں سے ہے۔

386 کروڑ پتی امیدواران ایسے سامنے آئے ہیں جن کی پارٹیاں تو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں لیکن وہ غیر معروف سمجھی جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے سب سے زیادہ کروڑ پتی امیدواران کا تعلق کانگرس اور اس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔

کانگرس کے 53 امیدواروں میں سے 46 امیدوارکروڑ پتی ہیں جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے 51 میں سے 45 امیدوار کروڑوں روپوں کے اثاثوں کے مالک ہیں۔

ڈراوڑ متنر کڑگم (ڈی ایم کے) پارٹی کے 24 میں سے 23 اور آل انڈیا ڈراوڑ متنر کڑگم (اے آئی ڈی ایم کے) پارٹی کے تمام 22 امیدواران کروڑ پتی ہیں۔

بہوجن سماج پارٹی کے 80 میں سے 21 امیدواروں نے اپنے اثاثے ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کے ظاہر کئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 427 کروڑ پتی امیدواروں میں سے پہلی تین پوزیشنز کانگرس کے امیدواران کے پاس ہیں۔

مالی اعتبار سے سب سے زیادہ امیر کنیاکماری (تامل ناڈو) سے کانگرسی امیدوار وسانتھا کمار ایچ ہیں جن کے اثاثوں کی مجموعی مالیت چار ارب 17 کروڑ روپے ہے۔

انتخابی امیدواروں میں دوسرے نمبر پر براجمان اودے سنگھ کا تعلق بھی کانگرس سے ہے۔ پورنیا (بہار) سے تعلق رکھنے والے امیدوارتین ارب 41 کروڑ روپے اثاثوں کے مالک بتائے گئے ہیں۔

ڈی کے سریش تین ارب 38 کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کے ساتھ تیسرے امیر ترین انتخابی امیدوارقرار دیے گئے ہیں۔ ڈی کے سریش بنگلور (کرناٹکا) سے کانگرس کے امیدوار ہیں۔

ہندوستان جنتا پارٹی کے سولاپور (مہاراشٹرا) سے انتخابی امیدوار شری وینکا ٹیسوار کے اثاثوں کی کل مالیت صرف نو روپے بتائی گئی ہے۔

دو آزاد امیدواروں راجیش پی اور راجا این کا نمبر بھی اسی فہرست میں شامل ہے کیونکہ ان کے اثاثوں کی مالیت بلترتیب 100/100 روپے بنتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والے 16 امیدواران نے اپنے اثاثے ’صفر‘ ظاہر کیے ہیں۔


متعلقہ خبریں