پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں 21 لاکھ کا اضافہ 


اسلام آباد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ 63 لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ 84 لاکھ ہو گئی ہے۔

یہ اعداد و شمار پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2018 میں پیش کئے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2016سے 2018 تک 6 سال کے بچوں کو اسکول بھیجنے کی شرح میں صرف دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2016 میں یہ شرح 81 فیصد تھی اور 2018 میں 83 فیصد رہی۔

ایچ آر سی پی کے مطابق پاکستان میں صرف 4 فیصد بچوں کو ہی ضرورت کے مطابق خوراک ملتی ہے۔ جنوری 2018 سے 31 دسمبر تک تھر میں بھوک کے سبب638 بچے ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں30 لاکھ لوگ جبری مشقت پر مجبور ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق 12 ملین یعنی ایک کروڑ دو لاکھ بچے مزدروی کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات میں47 فیصد اضافہ ہوا۔5 سال تک کے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں75 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبری مشقت کے حوالے سے عالمی انڈیکس میں پاکستان کا 8واں نمبر ہے جہاں 30 لاکھ لوگ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔

مزید پڑھیں: سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم،فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے،چیف جسٹس پاکستان

رپورٹ کے مطابق سال 2018 کے دوران قومی اسمبلی میں39 قوانین بنائے گئے جبکہ 2017 میں 34 قوانین بنائے گئے تھے۔ایچ آر سی پی  کے مطابق سال 2018 کے اختتام تک پاکستان کی250 سے زائد عدالتوں میں 19لاکھ مقدمات زیر التوا تھے۔

قومی احتساب بیورو کو 2018 میں 44315 شکایات وصول ہوئیں اور 1713 کی تصدیق کی گئی۔ نیب نے  کرپشن کے440 ریفرنسز دائر کیے اور 503 ملزمان کو گرفتار کیا۔

سال 2018 کے آخر میں پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کے 4688   قیدی تھے اور 2018 میں 14 قیدیوں کو سزائے موت دی گئی۔ 2014 سے 2018 کے درمیان 500 قیدیوں کو سزائے موت دی گئی۔

رپورٹ کے  مطابق پاکستان کی جیلوں میں استعداد سے57 فیصد زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 12000 پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔

مئی 2018 میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ 1330 افراد کو سیاسی یا عسکری وجوہات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے جب کہ دیگر 253 کو رہا کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2018 میں مرد اور خواتین کیخلاف جنسی تشدد کے845  اور غیرت کے نام پر316 جرائم ہوئے۔ پاکستان میں سائبر کرائم اور آن لائن ہراسمنٹ کے واقعات میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ایچ آر سی پی کے مطابق جنسی تفریق کے گلوبل انڈیکس میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔75 فیصد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں جن میں سے 60 فیصد کو اجرت نہیں دی جاتی۔ سال 2018 کے الیکشن میں ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ خواتین نے امیدواروں نے حصہ لیا۔ سینیٹ میں پہلی بار ایک دلت خاتون کو سیٹ دی گئی۔

پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ سینئر شہری ہیں جن کی تعداد 2050 تک چار کروڑ 30 لاکھ ہونے کے توقع ہے۔ ملک میں معذور افراد کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے جن کو  تعلیم ، تربیت اور روز گار کے بہتر مواقع میسر نہیں ہیں۔

نادرا کے مطابق پاکستان میں28 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہیں جن میں سے 16 لاکھ سے زائد کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہیں اور کم سے کم 10 لاکھ افغان مہاجرین ایسے ہیں جنہیں ریکارڈ میں درج نہیں کیا گیا۔

2018 میں 13584 مہاجرین پاکستان سے افغانستان واپس گئے جبکہ 2017 میں 57411 مہاجرین واپس گئے تھے۔ حکام کے مطابق 16136 مزید خاندانوں کو واپس بھیجا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی آمدن کا ایک فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کرتا ہے جب کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یہ شرح 6 فیصد ہونی چاہیے۔

2018 میں وبائی امراض پر کنٹرول کرنا پاکستان کیلئے ایک چیلنج رہا جب کہ دل کی بیماریوں، ذیابیطس، ہائپر ٹینشن اور مختلف اقسام کے کینسر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

فضائی آلودگی، نکاسی آب کی کمی  کے سبب سالانہ340000 اموات ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پہلے دس ممالک میں آتا ہے۔


متعلقہ خبریں