پاکستان نے اگلے برس 21 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے، ڈاکٹر حفیظ پاشا


اسلام آباد: نامور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اسد عمر امور خزانہ میں قابلیت رکھتے تھے لیکن وہ ماہر معاشیات نہیں تھے۔

ہم نیوز کے پروگرام “ایجنڈا پاکستان” کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے متضاد بیانات دیے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بے یقینی پھیل گئی۔ ہمیں گزشتہ برس اکتوبر نومبر میں ہی آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان لینی چاہیئے تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اگلے سال کم از کم 21 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا تو بہت سے درآمدات روکنا پڑے گی، ہمارا امیر طبقہ اس کے لیے تیار نہیں ہے، ٹیکس کی آمدنی بھی بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن لوگ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انکشاف کیا کہ بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کی وجہ سے حکومت نے رواں سال اسٹیٹ بینک سے جو قرض لیا ہے وہ ستر سالوں میں نہیں لیا۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں گیا تو تقریباً 25 سے تیس فیصد آمدنی بڑھانا پڑے گی جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجٹ کی تیاری دسمبر جنوری سے شروع ہو جاتی ہے اور مئی جون میں اسے پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسد عمرکو بجٹ کے بعد ہٹانا چاہیئے تھا، وزیرخزانہ کی تبدیلی کی وجہ سے آئی ایم ایف کے وفد کی آمد بھی تاخیر کا شکار ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق موجودہ حکومت نے جاری اخراجات میں 20 فیصد اضافہ کیا جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 30 فیصد کٹوتی کی جس کی وجہ سے معیشت کی رفتار سست ہو گئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا، رواں برس بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7 فیصد یعنی 2900 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت 19 ارب ڈالر جاری کھاتوں کا خسارہ چھوڑ گئی جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا جبکہ بجٹ خسارہ تقریباً 2500 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا جو کہ ہماری جی ڈی پی کا 6.5 فیصد تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی کی اور  رواں سال یہ 11.5 یا 12 ارب ڈالر تک رہے گا۔ لیکن اس کی وجہ درآمدات میں کمی ہے، برآمدات میں ابھی تک اضافہ نہیں ہو پایا  حالانکہ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی سمیت بہت سے اقدامات کیے ہیں۔

وزارت خزانہ کے حوالے سے انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وزارت میں صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس میں ایک بھی قابل ماہر معاشیات موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے لیکن نئے لوگوں کو مواقع نہیں دیے جاتے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان کو ہر سال 18 لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے، اگر اقتصادی شرح نمو 3 سے 4 فیصد رہی تو 8 سے 9 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی جبکہ 8 سے 10 لاکھ افراد بیروزگار رہیں گے۔ اگر یہی شرح نمو دو تین سال جاری ہی تو بیروزگاری 6 فیصد سے بڑھ کر 9 سے 10 فیصد تک چلی جائے گی۔

پروگرام کے میزبان عامر ضیاء نے اسد عمر کی ناکامی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ معیشت کو کوئی سمت نہ دے سکے، منڈیوں اور کاروباری طبقے کا اعتماد بحال نہ کر سکے، آئی ایم ایف پروگرام پر جلد فیصلہ نہ کر سکے اور انہوں نے موثر ٹیم نہیں بنائی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے ایک نیا اکنامک ایڈوائزری بورڈ بنایا ہے جس میں شوکت ترین، شبر زیدی، سلیم رضا، صادق سعید اور شیر اعظم شامل ہیں ان میں سے چار لوگ بینکار ہیں۔ اسی طرح اسد عمر نے شوکت ترین، طارق اقبال خان، خالد عزیز مرزا، صادق سعید، عدنان آفریدی کو حکومت کے مختلف عہدوں پر تعینات کیا، ان تمام کا تعلق سلک بینک سے ہے جو کہ ایک کامیاب بینک نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسد عمر کو ہٹانے کا فیصلہ فوری طور پر نہیں ہوا بلکہ اس پر جنوری فروری میں گفتگو شروع ہو گئی تھی۔


متعلقہ خبریں