پاکستان ہاکی فیڈریشن میں مبینہ بے ضابطگیوں کا ریکارڈ طلب

اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل 2020:تحریک سینیٹ میں پیش

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سینیٹ کی زیلی کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ نے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں مبینہ بے ضابطگیوں کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس کنوینیئر سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں ہوا جس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے انتظامی امور اور قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی سمیت دیگر اہم امور کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز سینیئر،ہاکی لیجنڈزمنظورجونیئر، خواجہ جنید، خالد بشیر اور سلیم ناظم نے شرکت کی۔۔

شہباز سینیئر نے کہا کہ تین سال پہلے ہی بتا دیا تھا ان کھلاڑیوں سے ٹورنامنٹس نہیں جیت سکتے، لاہور، کراچی اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں سے ہاکی ختم ہوچکی ہے۔پی ایچ ایف کو مالی بحران کا سامنا ہے اور غیرملکی ٹرینر کیلیے10لاکھ اورکوچ کیلیے 15لاکھ ماہانہ درکار ہیں۔

اولمپین منظورجونیئر نے کہا کہ ڈومیسٹک ہاکی تباہ ہوچکی ہے۔ 2024تک پاکستان ہاکی ٹیم اولمپکس نہیں کھیل سکی گی۔

خواجہ جنید نے کہا کہ ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچ کی خدمات حاصل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قومی کھیل کی بہتری کے لیے کسی غیرملکی کوچ کی ضرورت نہیں،فیڈریشن نے چارسال تک حکومت کو ہاکی پلان کیوں نہیں دیا۔

سلیم ناظم نے معاملہ اٹھایا کہ جب تک غیرجانبدارلوگ نہیں آئیں گے ہاکی زوال کا شکار رہے گی۔

اولمپیئن خالد بشیر نے کہا کہ موجودہ ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی صفررہی ہے، اس میں غیرقانونی کام اورکرپشن ہوتی ہے،اس فیڈریشن کا اصل مقصد ہاکی نہیں بلکہ فنڈز کے ذاتی مفادات کا استعمال تھا۔موجودہ فیڈریشن کے عہدیداروں کی تبدیلی ناگزیر ہے۔

یاد رہے پاکستان نے 1994 میں آخری بار عالمی ہاکی کپ جیتا تھاجس کے بعد قومی ٹیم کی کارکردگی بری ہی ہوتی چلی گئی۔ گزشتہ سال اولمپک گیمز میں ہاکی ٹیم نے بارہ ٹیموں میں سے آٹھویں نمبر پر رہی۔

2018 میں بھی قومی ہاکی ٹیم کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہی اور پورے سال میں کوئی ایک بھی بڑا ٹورنامنٹ اپنے نام نہیں کرسکی۔


متعلقہ خبریں