سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس بحال کردیا

عوامی اور سرکاری زمینوں پر پیٹرول پمپس کیسے تعمیر ہو گئے ؟ چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس بحال کردیا ہے، اب 100روپے کے کارڈ پر 100روپے نہیں ملیں گے۔

موبائل فون کمپنیوں  کی طرف سے فون کارڈز پر  اضافی ٹیکس کی وصولی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاہے کہ ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں سے انکم ٹیکس لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کیا ماضی کی ایسی عدالتی مثال موجود ہے جس میں ٹیکس مقدمے پر آرٹیکل 184 کی شق تین کا استعمال ہوا ہو؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اس مقدمے میں ایسے شہریوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جو انکم ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے۔تیرہ لاکھ شہری ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ دو کروڑ سے زائد شہریوں سے موبائل ٹیکس لیا جا رہا ہے۔نان فائلر شہریوں سے موبائل ٹیکس لینے کے خلاف مقدمہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں سے انکم ٹیکس لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ انکم ٹیکس کا قانون بنانے والا غیر ملکی تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم آپ کی دلیل سے متفق نہیں ہوتے تو کیا چیپٹر 12 ختم ہو جائے گا؟

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے موبائل کارڈز پر ٹیکس کٹوتی معطل کردی

اٹارنی جنرل نے کہا اگر چیپٹر 12 ختم ہو جاتا ہے تو ٹیکس کی مد میں حکومتی آمدن 40 فیصد کم ہو جائے گی۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب موبائل فون کمپنیاں اور صارفین سونے کا انڈہ دینے والی مرغیاں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا جو شخص سیب بھی خریدتا ہے وہ بھی ٹیکس دیتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا سپریم کورٹ کیا ہے؟ کیا اگر کوئی میرے چیمبرز میں آ کر میرے نوٹس میں کوئی چیز لائے تو کیا میں سپریم کورٹ ہوں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا جب آپ عدالت میں ہیں تو آپ سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نےپوچھا عدالت میں بنچ کا ہونا ضروری ہے یا ایک جج کا؟

صلاحیت نہ رکھنے والوں سے ٹیکس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ

چیف جسٹس پاکستان نے بتایا تین مئی 2018 کو موبائل ٹیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا۔ یہ معاملہ انسانی حقوق سیل کے ذریعے بنچ کے نوٹس میں لایا گیا۔اس معاملے کے جائزے کے بعد نوٹسز جاری کیے گئے۔عدالت نے معاملے کا جائزہ لیا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں آتاہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نوٹسز جاری کیے اور اس حوالے سے وجوہات بھی بیان کی تھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ وجوہات پڑھ لیتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے وہ کیس نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے اس کیس میں اپنے دلائل مکمل کرلیے ۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین  نے بھی کیس میں دلائل دیے ۔

چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ نوٹ پر یا کسی معلومات پر ازخود نوٹس لیتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا جج کے علاوہ کوئی اور شخص نوٹ پُٹ نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کوئی اور نوٹ پُٹ کر بھی سکتا ہے اور ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہےلاکھوں ٹیکس نہ دینے کے قابل شہریوں سے بلواسطہ ٹیکس لیا جاتا رہا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا سپریم کورٹ نے جس نوٹ پر ازخود نوٹس لیا اس میں متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی گئی؟

اس پر چیف جسٹس نے کہا اب وہ مرحلہ گزر چکا ہے،اب ہمارے لیے مقدمے کے آغاز کی طرف واپس جانا ناممکن ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہم نظرثانی کیس سن رہے ہیں۔جو احکامات جاری کر دیے گئے انہیں چھوڑ دیں۔

چیف جسٹس نے کہا آخری مرحلے تک ہمارے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ یہ کہہ دیں مقدمہ مفاد عامہ کا نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا سپریم کورٹ آرٹیکل 184تین  کے تحت خود اپنے اختیارات کو کیسے ریگولیٹ کرے گی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ وسیع معاملہ ہے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا موبائل ٹیکس سے متاثرہ کوئی بھی شخص سپریم کورٹ میں نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے کہا یہ مقدمہ لاکھوں لوگوں سے لی گئی خطیر رقم سے متعلق ہے۔

سندھ حکومت کے  وکیل نے کہا کسی شخص نے سپریم کورٹ آ کر یہ نہیں کہا کہ اس کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا نان فائلرز سے بلوں میں ٹی وی ٹیکس لیا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ٹی وی ٹیکس بنیادی طور پر پی ٹی وی سے متعلق ہے۔ کیا کوئی جا کر یہ کہہ سکتا ہے میں پی ٹی وی نہیں دیکھتا، ٹی وی ٹیکس نہیں دیتا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں سیلاب آیا۔ایک گیلن پٹرول لینے والوں سے سیلاب ٹیکس لیا جاتارہا۔ 90 کی دہائی تک مشرقی پاکستان سیلاب ٹیکس لیا جاتا رہابعض اوقات ایسا بھی ہوتا رہاسپریم کورٹ نے سوشل میڈیا پیغام کی بنیاد پر ازخود نوٹس لیا۔ پیغام میں کہا گیا موبائل کمپنیوں نے ڈھونگ رچا رکھا ہے اور حکومتوں کی چال ہے۔سوشل میڈیا پیغام میں کہا گیا موبائل ٹیکسوں پر چیف جسٹس ازخود نوٹس لیں۔

سندھ حکومت کے وکیل نے کہا سوشل میڈیا پیغام کس کی طرف سے جاری کیا گیا اس حوالے سے کچھ علم نہیں۔ سوشل میڈیا میں غلط معلومات کی بھرمار ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا سوشل میڈیا پیغام کے آخر میں تو یہ لکھا گیا کہ یہ بیس کروڑ عوام کا مطالبہ ہے۔سوشل میڈیا پیغام کس نے دیا اس کا نام درج نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ گھوسٹ پیغام ہوآج کل کی دنیا میں سوشل میڈیا پر جعلی معلومات کی بھرمار ہے۔میرے نام سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے گئے۔ہم نے وضاحت دی کہ میرا کوئی اکاؤنٹ نہیں۔

سندھ بورڈ آف ریونیو کی جانب سے پرائیویٹ وکیل کرنے پر عدالت  نے اعتراض عائد کیا۔

وکیل پنجاب حکومت قاسم چوہان  نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر موبائل صارف پشاور میں لوڈ کرواتا ہے اور استعمال کراچی میں کرتا ہے تو ٹیکس سندھ حکومت کو جائے گا۔ جس وقت آپ موبائل فون استعمال کرتے ہیں اسی وقت سے آپ کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال پنجاب حکومت کو 27 ارب روپے کا نقصان ہوا۔رواں سال یہ نقصان 23 ارب روپے ہوا ہے۔ فیصلہ ہمارے حق میں آنے پر ہم اس نقصان کی ریکوری چاہیں گے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ریکوری تو آپ نے ہم سے کرنی ہے۔ ٹیکس کٹوتی کرنے سے تو عدالت نے روکا تھا۔کمپنیوں کو تو کچھ نہیں ملا ۔اگر دعویٰ کریں گے تو ہمارے خلاف کریں گے۔

بلوچستان حکومت کے وکیل نے  دلائل  میں کہا کہ ہم موبائل فون صارفین سے ایڈوانس ٹیکس نہیں لے رہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا جب موبائل نہیں تھے تب آپ کا ریونیو کیسے آتا تھا؟ لوگ تو تب بھی بات کرتے تھے۔اب لوگوں نے بات کرنے کا نیا طریقہ نکال لیا ہے کیا اب ان سے پیسے لیں گے؟

یہ بھی پڑھیے:فون کارڈزپر ٹیکس :بہت بڑی رقم عوام کی جیبوں سے نکالی گئی، سپریم کورٹ

بلوچستان حکومت کے وکیل نے کہا پہلے موبائل کمپنیاں مزے کر رہی تھیں، پہلے اس حوالے سے کوئی قانون نہیں تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہماری کوشش ہے آج ہی اس کا فیصلہ سنا دیں،عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیااور کہا باہمی مشاورت کے بعد آدھے گھنٹے تک فیصلہ سنائیں گے۔ عدالت نے آدھے گھنٹے بعد موبائل فون پر ٹیکس بحالی کا حکم دے دیا۔ عدالت نے 12جون کو دیا گیا حکم امتناع واپس لے لیا ۔


متعلقہ خبریں