عدالتی رحجان کے حوالے سے عدالتوں کا فیصلہ ضروری ہے،سلمان اکرم راجہ



اسلام آباد: معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عدالتی اختیارات کا تعین ہونا چاہیے، سپریم کورٹ اورہائیکورٹ کے ججز بیٹھیں اور فیصلہ کرلیں تاکہ ہرنئے چیف جسٹس کے ساتھ معاملات بدل نہ جائیں کہ کونسے معاملات کو عدالت دیکھے گی اور کن معاملات کو نہیں۔

پروگرام بڑی بات میں میزبان عادل شاہ زیب سے گفتگو کرتے ہوئے  سلمان اکرم راجہ نے کہا آج عدالت میں ماضی کی نسبت مختلف رحجان ہے، سابق چیف جسٹس اسکولوں کی فیس، پانی کے نرخ سمیت ہرمعاملے کوازخود دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل کارڈز کے حوالے سے پہلی بار نہیں تھا کہ سپریم کورٹ نے یہ نوٹس نہیں لیا تھا، اس حوالے سے انکم ٹیکس میں رقم وصول کی جاتی ہے اور اس میں وہ شخص بھی شامل ہوتا ہے جو ٹیکس دینے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا 148 تھری کے معاملے کی حدبندی آسان نہیں کہ اس کی تشریح بہت وسیع ہے، یہ شخص پرنہیں بلکہ ادارے پر ہونا چاہیے، امریکہ میں جب اصلاحات ہوئیں تو اس کے بعد چند ایسے قوانین ہیں جن میں امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کی، عدالتی رحجان کے حوالے سے اندرونی فیصلہ ضروری ہے کہ کس ادارے سے کیسا تعلق ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد کے فیصلوں پر ججز اور فیصلوں کی تعریف ہوتی ہے، میڈیا کا بھی اس میں کردار ہوتا ہے۔

اپوزیشن کی کوشش ہےعوامی مسائل پربات نہ ہو،شندانہ گلزار

تحریک انصاف کی رہنما شندانہ گلزار نے کہا کہ وزیراعظم نے جو کہا وہ زبان کی غلطی سے ہوا، وہ ایسا نہیں کہے سکتے کیونکہ اس سے تحریک انصاف کی خواتین بھی حمایت نہیں کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہمیشہ بدکلامی ہوتی رہی ہے، اپوزیشن اسمبلی میں جو زبان استعمال کرتی ہے، آج اس معاملے کو اس لیے اٹھایاجارہا ہے کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ عوام کے اصل مسائل پربات ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ وزیراعظم پر کیا دباو ہے، اپوزیشن ہر موقع پرکوئی نا کوئی کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ہراہم موقع پر یہ پارلیمان میں بات نہیں ہونے دیتی۔ آٹھ ماہ سے مسلسل یہی کررہے ہیں۔

اسدعمرکی جگہ حفیظ شیخ کی ایمنسٹی اسکیم نے لے لی ہے،شہبازرانا

سئینرصحافی شہبازرانا نے بتایا کہ اسدعمر کی لائی جانے والی ایمنسٹی اسکیم کی جگہ حفیظ شیخ کی اسکیم لے رہی ہے، اسدعمر نے مافیا کو باہر رکھا ہوا تھا جو حفیظ شیخ کے بعد مشاورت میں شامل ہورہے ہیں اور یہ ٹیکس کی شرح بھی انتہائی کم کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسدعمر کے ٹیکس  پانچ سے 25 فیصد تھے جو زیادہ تھے تاکہ ٹیکس دینے والوں کو زیادہ محسوس نہ ہو لیکن اب دو یا تین فیصد کرنے کے مشورے دیئے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کابینہ میں ٹیکس ایمنسٹی کو وزراء سپورٹ نہیں کررہے تھے لیکن وزیراعظم اس کے حق میں تھے، اب نئی صورتحال کے بعد کابینہ کا فیصلہ اہم ہوگا۔

شہبازرانا نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے دو ، مسلم لیگ ن نے چار ٹیکس ایمنسٹی اسکمییاں دیں لیکن ان میں اصل مسائل پرتوجہ نہیں دی جاتی کہ قانونی خامیاں دور نہیں کی جاتی، اگرحکومت اب بھی یہ کرے گی تو مسئلہ حل نہیں ہوگا،اگر اشرافیہ کے لیے ہی قانون بننے ہیں تو پھرعام آدمی ٹیکس کیوں دے


متعلقہ خبریں