مودی اور بی جے پی کے خلاف سبکدوش فوجیوں کا ’سیاسی‘ مورچہ

بھارت: بی جے پی کو 915.596 کروڑ روپے کی امداد کس نے دی؟

نئی دہلی: بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور مسلمان و اقلیت دشمن وزیراعظم نریندر مودی کی لوک سبھا کے انتخابات میں مشکلات روز بروز بڑھتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کے امکانات کم سے کم تر ہورہے ہیں۔

نریندر مودی بھارتی انتخابات میں جہاں اپنا فوج سے تعلق جتا کر انتہا پسند ہندو رائے دہندگان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کررہے تھے وہیں انہیں اس وقت سخت دھچکہ لگا جب سبکدوش بھارتی فوجیوں نے بھی ان کے خلاف ’سیاسی‘ اعلان جنگ کرتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں ڈیرے ڈال کر باقاعدہ وزیراعظم کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی ٹھان لی۔

سانحہ گجرات سے بطور ’قاتل، دہشت گرد اور مسلمان دشمن‘ کی شہرت حاصل کرنے والے نریندر مودی کے لیے ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں پہلے ہی بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس سے سبکدوش کیے جانے والے تیج بہادر مشکلات پیدا کیے ہوئے ہیں۔

بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس سے تعلق رکھنے والے تیج بہادر نے غیر معیاری کھانا فراہم کرنے کی شکایت کی تھی اوراس حوالے سے ان کی تیارکردہ ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہوگئی تھی۔

بھارت کی سرکار نے اس ’جرات رندانہ‘ پر تیج بہادر کو ان کی ملازمت سے فارغ کردیا تھا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی نیندیں اڑانے والے سبکدوش بھارتی فوجیوں نے ان کے خلاف سیاسی’مورچہ‘ اس لیے لگایا ہے کہ وہ ان کی پالیسیوں اور فوج سے متعلق ان کے بیان پر سخت ناراض ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سبکدوش بھارتی فوجیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم مودی فوج کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ فوج میں بدعنوانی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔

میڈیا کے مطابق فوجی جوان وارانسی کے مڈواڈیہہ علاقے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ خراب کھانے کی شکایت کرنے کے بعد برخاست کیے گئے بی ایس ایف کے جوان تیج بہادر کی حمایت میں مہم چلائیں گے۔

تیج بہادر وارانسی پارلیمانی حلقے سے بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوئے ہیں اوروزیراعظم مودی کو شکست دینے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ تیج بہادر کا دعویٰ ہے کہ ’’میں سچا چوکیدار ہوں اور فرضی چوکیدار کے خلاف لڑ رہا ہوں‘‘۔

نریندر مودی اپنی انتخابی مہم میں دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے فوج کو قابل فخر مواقع میسر کیے ہیں جب کہ بھارتی فوجی تیج بہادر ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہی تحریک چلارہے ہیں جو الیکشن میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق وارانسی میں مودی کے خلاف انتخابی تشہیر میں مصروف معطل فوجیوں کی شکایت ہے کہ وہ اپنے بڑے افسران کی غلط کاریوں کے خلاف آواز اٹھانے اور بدعنوانی کی مخالفت کرنے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

بھارتی فوج سے سبکدوش کیے جانے والے فوجیوں کا الزام ہے کہ وہ تحریک اس لیے چلارہے ہیں کہ حکومت نے بدعنوان افسران کے خلاف کی جانے والی ان کی شکایات کو نظر انداز کیا۔

بھارت کے میڈیا کے مطابق سی آر پی ایف سے ’سسپنڈ‘ کیے گئے 32 سالہ پنکج مشرا کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی طرف سے کم از کم چار ہزار شکایات دی گئی ہیں مگر ساری دی جانے والی شکایات گزشتہ تین سال سے پی ایم او میں پینڈنگ پڑی ہیں۔

اتر پردیش میں اکثریت کے ساتھ ماضی میں برسر اقتدار آنے والی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے خلاف پارٹی کے دلت اراکین پارلیمنٹ میں مسلسل ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔

ریاست کے دو دلت اراکین پارلیمنٹ کے بعد اب ایک اور دلت رکن پارلیمنٹ نے ریاستی قیادت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔

ایٹاوا سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اشوک دوہرے نے ریاست میں اپنی ہی پارٹی کی یوگی حکومت کے خلاف قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو شکایتی خط لکھا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم مودی کو لکھے خط میں دوہرے نے مؤقف اختیارکیا ہے کہ ہندوستان بند کے دوران اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پولس دلتوں اور شیڈولڈ کاسٹ کے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا رہی ہے۔

خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ دلتوں پر مظالم شروع ہو گئے ہیں اور پولس دلت طبقہ کے بے قصور لوگوں کو ذات کی بنیاد پر نشانہ بنانے والے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے گھروں سے نکال کر مارتے پیٹتے ہوئے گرفتار کر رہی ہے۔

رکن پارلیمنٹ کے مطابق پولس کے اس رویے سے شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے لوگوں میں عدم تحفظ کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔

اشوک دوہرے کے مطابق پولیس کارروائی سے دلت طبقے کے لوگوں میں بی جے پی حکومتوں کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور بھاری وزیراعظم مودی کے قابل اعتماد و بھروسہ ساتھی یوگی آدتیہ ناتھ کے رویے کے خلاف رابرٹس گنج لوک سبھا کی نشست سے بی جے پی کے دلت رکن پارلیمنٹ چھوٹے لال کھروار نے بھی وزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔

کھروار نے اپنے خط میں الزام عائد کیا تھا کہ انتظامیہ اور ضلعی افسران ان کی بات نہیں سنتے اور ان کے ساتھ تفریق کرتے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے کی شکایت شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کمیشن میں بھی کی ہے۔

رکن پارلیمنٹ نے لکھا تھا کہ جب یوگی وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی زمین کو محکمہ جنگلات کی زمین بنادیا اور جب خود انہوں نے وزیراعلیٰ یوگی سے ملاقات کر کے ہونے والی زیادتی بتائی تو انہیں ڈانٹ کربھگادیا گیا۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے اتر پردیش کے بہرائچ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے اپنی ہی حکومت کے خلاف محاذ کھولتے ہوئے لکھنؤ کے کانشی رام اسمرتی اُپون میں ’ہندوستانی آئین اور ریزرویشن بچاؤ مہا ریلی‘ کا انعقاد کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریزرویشن کوئی بھیک نہیں ہے بلکہ نمائندگی کا ایشو ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر ریزرویشن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مہاراشٹر نو نرمان سینا (این این ایس) کے سربراہ راج ٹھاکرے جب مراٹھی میں بولتے ہیں کہ ذرا اویڈیو کلپ آن کرو تو وزیراعظم نریندر مودی سمیت پوری بی جے پی خوفزدہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس طرح وہ مودی حکومت کی قلعی کھولتے ہیں۔

میڈیا کے مطابق راج ٹھاکرے اپنی ریلیوں میں اسٹیج پر دو بڑے بڑے ایل ای ڈی اسکرین لگواتے ہیں جس پر وہ مختلف قسم کے دعوے کرتے ہوئے مودی کے ویڈیو کلپس دکھاتے ہیں اور پھر اپنی بات کرتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق وہ اسٹیج پر مودی کا ایک ویڈیو کلپس دکھاتے ہیں جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہار میں آٹھ لاکھ 50 ہزار بیت الخلا ایک ہفتے میں بنا ئے گئے ہیں۔

راج ٹھاکرے کا اس پر مؤقف ہے کہ مودی کہہ رہے ہیں کہ ہر پانچ سیکنڈ میں سات بیت الخلا بنائے گئے ہیں یعنی جتنی دیر میں آپ وہاں سے واپس آتے ہیں اس سے بھی کم وقت میں وہ تعمیر کردیتے ہیں۔

میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ راج ٹھاکرے کی بات سن کر موجود لوگ ’قہقہہ‘ لگاتے ہیں۔

راج ٹھاکرے نیشنلزم کے حوالے سے پلوامہ واقعہ اور اسی طرح بالاکوٹ ائیر اسٹرائیک پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے استفسار کرتے ہیں کہ آپ ہی سوچو! اگر ہماری ایئر اسٹرائیک سے ایک بھی پاکستانی مرا ہوتا تو کیا پاکستان وِنگ کمانڈر ابھینندن کو کچھ ہی دنوں میں زندہ لوٹنے دیتا؟

وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا عمران خان پاکستان کے لوگوں کے حوالے سے ذمہ دار نہیں ہے؟ ایسے میں امت شاہ کس بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم لوگوں نے 250 پاکستانیوں کو مارا ہے؟

راج ٹھاکرے طنزیہ اور جارحانہ انداز سے پہلے بھی بولتے رہے ہیں لیکن یہ ان کا نیا انداز ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ راج ٹھاکرے کی پارٹی نے ہونے والے الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں اور کسی پارٹی کے ساتھ مشترکہ ریلی بھی منعقد نہیں کررہے ہیں لیکن میڈیا کے مطابق ان کا واحد مقصد صرف نریندر مودی اور امت شاہ کو ہرانا ہے۔

راج ٹھاکرے بھی پہلے مودی کے حامی رہے ہیں لیکن اب انھوں نے ان کے خلاف مورچہ لگا لیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا بھارتی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہنا ہے کہ وہ اس لیے مخالف ہوئے ہیں کہ مودی نہ صرف غلط دعوے کرتے ہیں بلکہ ملک کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

راج ٹھاکرے کا کہنا ہے کہ الیکشن میں بی جے پی کی شکست یقینی بنانی ہے تاکہ ملک کو بچایا جا سکے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق راج ٹھاکرے کے اس عمل پر بی جے پی اور شیو سینا اتحاد کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کے حملوں کا جواب کیسے دے؟

راج ٹھاکرے 29 اپریل کو مہاراشٹر میں ہونے والی آخری مرحلے کی ووٹنگ کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی جا کر  اسی طرح کی ریلیاں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ہماچل پردیش میں بی جے پی کے ریاستی صدر ستپال سنگھ ستی کے بیان پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔

24 اپریل کو ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران ستپال سنگھ ستی نے دھمکی دی تھی کہ اگر مودی کے خلاف کوئی انگلی اٹھائے گا تو اس کا بازو کاٹ کر ہاتھ میں پکڑا دیں گے۔

ستپال سنگھ جس وقت یہ زہر افشانی کررہے تھے اس وقت وہاں پر وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر اور سابق وزیر اعلیٰ شانتا کمار جیسے سینئر رہنما بھی موجود تھے۔

ستپال ستی کے اس بیان پر منڈی کے انتخابی افسر نے نوٹس لیتے ہوئے ان کی تقریر کی ویڈیو فوٹیج اور تحریری نقل ہماچل پردیش کے چیف الیکشن آفیسر کو بھیج دی ہیں۔

ڈی سی منڈی رِگوید سنگھ نے مقامی میڈیا کو بتایا  ہے کہ ستپال سنگھ ستی کو نوٹس جاری کر کے جواب دینے کو کہا گیا ہے۔ نوٹس کی ایک کاپی چیف الیکشن آفیسر کو بھی بھیجی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے انہیں دوسری مرتبہ نوٹس بھیجا ہے۔

اس سے قبل 13 اپریل کو ایک ریلی سے خطاب کے دوران ستپال سنگھ ستی نے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا اور ان کو گالی دی تھی۔

ستپال سنگھ کی وہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان پر 48 گھنٹوں کی تشہیری پابندی عائد کر دی تھی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق الیکشن کمیشن کی اس کارروائی کے باوجود ستپال کا پھر سے زہر افشانی والا بیان دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نظر میں الیکشن کمیشن کی کتنی عزت ہے؟


متعلقہ خبریں