مسائل کا حل، نئے انتخابات، شاہد خاقان عباسی



اسلام آباد: سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے موجودہ ملکی مسائل کا حل نئے انتخابات تجویزکردیا ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامرضیاء سے گفتگو کرتے ہوئےسابق وزیراعظم نے کہا کہ ملکی مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں، یہ میری ذاتی رائے ہے، ہر سیاسی شعور رکھنے والا یہی حل سمجھتا ہے۔ الیکشن کرانے سے عدم استحکام آئے گا لیکن اس کا نقصان اس سے کم ہوگا جو الیکشن نہ کرانے سے ہو گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور یہ وزیراعظم ناکام ہوچکے ہیں، اس لیے بی ٹیم لائی گئی ہے۔ ابتداء والے ناکام ہوگئے ہیں، آنے والوں کی جارحانہ پالیسیاں زیادہ دور نہیں جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ  ہم آج تک ملک کو ایک بھی شفاف الیکشن نہ دے سکے، غیرشفاف اور غیرمتنازعہ الیکشن جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ ملک آئین اورقانون کے تحت نہیں چلتا اس لیے افراتفری ہے، چھ ادارے ملکی اقتدار میں حصہ دار ہیں وہ بیٹھ کر فیصلہ کرلیں۔

شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ نیب ایک کالا اوراندھا قانون ہے، آمر نے اسے سیاستدانوں کو توڑنے کے لیے بنایا، آج بھی سیاسی بدعنوانی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ملک کی خاطر نیب کو ختم کردیں، یہ لکھ لیں کہ اس کا اطلاق مسلم لیگ ن پر ہو گا۔

انہوں نے اپنے دور میں اس قانون میں اصلاحات سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نیب قانون کو ہاتھ لگاتے تو عدالت نے اسے ختم کردینا تھا، یہ قانون صرف تمام جماعتوں کی مشاورت سے ختم ہوسکتا ہے، اگر یہ اچھا قانون ہے تو اس کا اطلاق ججوں اور جرنیلوں پر بھی کریں۔

انہوں نے بتایا کہ نیب قانون میں ترمیم پر بات ہوئی، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے اتفاق بھی کیا لیکن پانامہ کے آنے سے یہ دونوں جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔

سابق وزیراعظم نے اپنے خلاف مقدمات کے حوالے سے کہا کہ میرے خلاف چھ مقدمات ہیں، اگر سیاسی سسرگرمیاں ترک کر کے گھر بیٹھ جاؤں تو میرا نام نہ ای سی ایل پر ہو گا اور نہ ہی نیب کا کیس ہو گا۔ میں نے اپنا ضمیر نہیں بیچا اس لیے 20 سال سے نیب کا سامنا کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی میں بھی بدعنوانی موجود ہے لیکن نام صرف سیاستدانوں کا آتا ہے، اس پرسزا صرف نوازشریف کو ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے موبائل کارڈ پرٹیکس سے متعلق فیصلہ دیا اس سے ملک کو 125 ارب روپے کا نقصان ہوا، یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔

شاہدخاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 2018 کا الیکشن غیرشفاف اور متنازعہ تھا جس کے بعد حکومت بھی متنازعہ بنی، چور دروازے سے آئی حکومت نہیں چلتی، آٹھ ماہ میں یہ ناکام ہوگئی ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ وہ معاشی ٹیم جو فیصلے کرتی تھی اسے نکال دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی معیشت کو بہت نیچے لے گئی جیسے ہم نے سنبھالا، ان آٹھ ماہ میں معیشت  نیچے چلی گئی ہے، پیپلزپارٹی والے افراد واپس آچکے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ عوام جس کا انتخاب کریں گے پارلیمنٹ میں وہی ہوں گے، وہاں ہرطبقے کی نمائندگی موجود ہے،  اگر اشرافیہ کے لوگ ہی کسی اور طریقے سے وہاں پہنچ جائیں تو یہ اشرافیہ کا کلب بن جاتا ہے۔  پرویزمشرف کی گریجویشن کی پابندی سے بدترین لوگ اسمبلی میں آئے اور قابل سیاستدان باہر نکل گئے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ 35 سال کے تجربے کے لوگ ملک میں حکمران رہے، ان کے پاس ہراختیار تھا، کیا اس سے حکومتیں بہتر چلیں؟ پاکستانی عوام پر کبھی فیصلہ نہیں چھوڑا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتیں مدت پوری کرلیتی ہیں لیکن کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ن لیگ کو جہاں 2013 میں پاکستان ملا،2018 میں اس سے بہتر حالت میں ہمنےہ چھوڑا، توانائی، امن وامان سمیت ہرشعبے میں ہم نے بہتری لائی تھی۔

شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ سیاستدان پرالزام لگانا سب سے آسان ہے، کنٹرول میڈیا کے ذریعے نیب بدنام کرتا ہے، یہ حقیقت سالوں بعد پتہ چلتی ہے کہ مقدمہ ہی جھوٹا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کاخوف نہیں ہے، سیاستدان کو وہ گرفتار کرتے ہیں جو اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اکثر بدعنوان لوگ حکومت میں ملتے ہیں، یہ ماضی میں بھی شامل رہے آج بھی حکومت کا حصہ ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں سب سے بڑیبکرپشن ٹیکس چوری ہے، موجودہ کابینہ میں 47 لوگ ہیں ان سے پوچھ لیں کہ یہ سب لوگ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے کوئی غلطی نہیں کی،ہم نے آئین اورقانون کے مطابق ذمہ داریاں پوری کیں، اقتدارمیں شریک لوگوں کو ملکی مسائل اوران کا حل سمجھانے کی کوشش کی۔ ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا یامحاذآرائی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو اقامے پرنکالا گیا۔ لوگوں کی سیاسی زندگی سے زیادہ نوازشریف نے اقتداردیکھا، نوازشریف ضدنہیں کرتے لیکن کچھ اصولوں پرکھڑا ہونا پڑتا ہے۔انہوں نے ملک میں سچائی کمیشن قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

لیگی رہنما نے مریم نوازکے سیاست میں آنے سے متعلق کہا کہ یہ فیصلہ مریم نوازنے کرنا ہے کہ وہ سیاست میں آئیں گی یا نہیں، جب ان کے والد کو نکالا گیا تو وہ مخصوص مقصد کے لیے سیاست میں آئیں، پارٹی اور سیاست میں اپنا مقام بنایا،  ان کے پاس کوئی سرکاری یا پارٹی کاعہدہ نہیں رہا۔


متعلقہ خبریں