کم عمری کی شادی پر پابندی اور ای سی ایل میں ترمیم کا بل منظور



ایوان بالا یعنی سینیٹ نے کم عمری میں بچیوں کی شادی پر پابندی اور  ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ترمیم کا بل منظور کرلیاہے۔ ای سی ایل میں ترمیم کا بل پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے جمع کرایا تھا۔ بل کے متن میں کہا گیاہے  کہ  حکومت ای سی ایل میں نام ڈالنے سے قبل اس کی وجوہات بیان کرے گی۔ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر متعلقہ شخص یا ادارے کو آگاہ کیا جائے گا۔

سینیٹ کی طرف سے پاس کیے گئے بل میں کہا گیاہے کہ ای سی ایل میں شامل ہونے والے شخص کی اپیل پر پندرہ روز کے اندر فیصلہ کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر نام ای سی ایل سے خارج ہو جائے گا۔ سینیٹ نے متفقہ طور پر بل منظور کیا۔

کم عمری کی شادی پر پابندی سے متعلق ایکٹ 1929 میں مزید ترمیم کا بل بھی پیش کیا گیا۔ بل سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے پیش کیا گیا۔ ایوان میں شیری رحمان کی جانب سے پیش کیے گئے بل پر بحث بھی کی گئی ۔

سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ ہمیں تحفظات ہیں ، اس معاملے پر علماء کو نہیں بلایا گیا۔ اس حساس معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔

مولوی فیض محمد نے کہا کہ اسلام کے قانون کو اس سینیٹ میں بدلنے والےہم  کون ہوتے ہیں۔ اس معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جائے۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ بچے ہمارے مستقبل ہیں ہمیں اپنے بچوں کا تحفظ کرنا ہے۔کچھ معاملات پر ہمیں ماہرین سے رائے لینی پڑتی ہے۔اگر دنیاوی معاملات پر ہم رائے لیتے ہیں تو اس معاملے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ماضی میں حساس معاملات پر احتیاط نہیں برتی گئی تو معاملات خراب ہوئےمناسب ہوگا اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجا جائے۔

سینیٹر رضاربانی نے کہا پہلے اسطرح کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایاگیا مگر آج تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنا سردخانے کی نظر کرنا ہوگا۔یہ قانون سندھ میں نافذالعمل ہے۔

وزیرمذہبی امور نے کہا 2009 اور 2014 میں اس نوعیت کا بل قومی اسمبلی میں آیا۔2012 اور 2013 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسکو اسلام سے متصادم قرار دیا تھا۔ عطیہ عنایت اللہ اور ماروی میمن نے بل واپس لے لیا تھا۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کم عمری یا زبردستی کی شادی کے باعث مائیں مررہی ہیں۔ ووٹ اور شہریت اور رائے دینے کے لئے عمرکی حد 18 سال ہے۔ قائمہ کمیٹی میں تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی تھی۔ مغربی روایات کو فروغ نہیں دے رہے یہ بات غلط ہے۔بچپن کی عمر کی حد مقرر کرنے کی بات کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:سینیٹ اجلاس، مشاہداللہ کی اعظم سواتی کو وزیر بننے کی مبارک پرایوان میں قہقہے

شیری رحمان نے کہا کہ تشدد کے خلاف ہماری زمہ داری ہے کہ ہم عمر کی حد مقرر کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ ہر بیس منٹ بعد ایک عورت زچگی میں دم توڑ دیتی ہے۔ دنیا میں زبردستی، تشدد اور بنیادی حقوق یقینی بنانے کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ سارے اسلامی ممالک میں یہ عمرکی حد نافذ ہوچکی ہے۔پارلیمان سب باڈیز سے بالاتر ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا اس بل کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کرپارہا۔قائمہ کمیٹی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح رائے نہیں دی۔جس قانون پرعمل درآمد نہیں ہوتا اس سے برا قانون کوئی نہیں۔کچھ چیزیں روایات ہیں اسلام سے انکا تعلق نہیں ہے۔ اس پر پوزیشن لینے کی بجائے سوچ سمجھ کر چلنا چاہئیے ۔ اس قانون کے غلط استعمال پر بھی نظر رکھنی چاہئیے ۔

سسی پلیجو نے کہا کہ شادی کی عمر کی حد کا زیادہ شکار بچیاں اور عورتیں ہیں۔ پاکستان میں بچیوں کو سانس تو لینے دیں۔ دیہاتی خواتین زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔شادی کے لئے عمر کی حد مقرر کرنے پر اجماع اور اجتہاد کا استعمال کرنا چاہئیے۔اس بل کے حوالے سے اراکین کی ووٹنگ کرالی جائے۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا مدینہ کی ریاست پر بات کریں تو اس پر عملدرآمد نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھنا ہوگا کہ کہی اپنی زمہ داری سے جان چھڑانے کے لیے بچیوں کی کم عمری میں شادی تو نہیں ہو رہی؟ مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والے پنجاب میں شراب کا لائسنس عام کر رہے ہیں۔

سینیٹر شیری رحمان کا کم عمر کی شادی پر پابندی کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی  کے سینیٹرز نے بل کی مخالفت کی ۔

جے یو آئی ف جماعت اسلامی کے ارکان نے  چیرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔ شور کے باوجود بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔ پیپلزپارٹی،ن لیگ  اور پی ٹی آئی نے بل کی حمایت کی ۔ بل کے مطابق بچوں اور بچیوں کی بلوغت کی عمر 18 سال ہوگی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور 1973 میں مزید ترمیم کابل دستور ترمیمی بل 2018 (آرٹیکل 130 کی ترمیم ) ایوان میں پیش ہوا۔ دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث بل کی منظوری مسترد کردی گئی ۔ بل سینیٹر قراۃ لعین مری نے پیش کیاتھا۔

سرکاری اورنجی اسکولوں میں تربیت یافتہ طبی عملہ کی سہولت کی فراہمی کے لئے قانون وضع کرنے کا بل پیش کیا گیا۔ بل پیپلز پارٹی کی سینٹر قرۃ العین مری نے پیش کیا

سینیٹ نے بل منظور کرلیا۔

پابندی ازدواج  واطفال ترمیمی بل 2018 ایوان میں پیش کیا گیا۔ بل پیپلز پارٹی کی شیریں رحمان نے پیش کیا۔

مولانا غفور حیدری نے اس بل پر اظہار کیال کرتے ہوئے کہا کہ شریعت میں نکاح کی حد بلوغت رکھی گئی ہے۔ اگر بلوغت کی عمر 18 برس مقرر کی گئی تو نکاح نہیں ہوسکے گا۔حضرت عائشہ کا نکاح نو سال کی عمر میں کیا گیا۔اگر عمر کی حد مقررکی گئی تو ہم اپنی تاریخ کی نفی کریں گے۔ایوان میں قرآن و حدیث کے منافی چیز نہیں آنی چاہئیے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا بچوں کی کم عمری کی شادی کے سب خلاف ہیں۔بارہ ہزار اور سولہ ہزار سات بچے میٹرنٹی ہوم اور سہولیات نہ ہونے کے باعث جاں بحق ہوئے۔بچے حکومت کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لینی چاہئیے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمانی سروس ایکٹ 2008 میں مزید ترمیم کا بل بھی سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ بل سینیٹر سسی پلیجو نے بل پیش کیا ۔ حکومت کی طرف سے  بل کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔

بل میں کہا گیاہے کہ پیپس میں پارلیمنٹرینز کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی بھی تربیت کی جائے۔ چیرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

اسلام آباد میں فلاح و بہبود کمیونٹیز کے اہتمام کابل سینیٹر رانا مقبول احمد نے پیش کیا۔ چیرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

ہائی کورٹس کے نئے بینچز بنانے سے متعلق آئینی ترمیم بل سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ سینیٹر جاوید عباسی نے آئین کے آرٹیکل 194 کی شق تین اور چار میں ترمیم تجویز کی ہے۔

بل میں کہا گیاہے کہ چاروں صوبوں میں ہائی کورٹس کے نئے بنچ بنائے جائیں۔کابینہ کی بجائے صوبائی اسمبلی کی منظوری سے نئے بنچ بنائےجائیں۔ سستے اور فوری انصاف کےلئے ہائی کورٹس کے نئے بنچ بنائے جائیں۔ حکومت نے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کردی۔

وزیرپارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ حکومت پہلے ہی نئے بینچز بنانے پر قانون سازی کررہی ہے۔ کابینہ نے منظوری دیدی ہے جلد ایوان میں بل پیش کرینگے۔

چیرمین سینیٹ نے بل کثرت رائے سے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹر رضاء ربانی کا بنکنگ کمپنیز آرڈیننس ترمیمی بل بھی منظور کرلیا گیا۔ بل میں کہا گیاہے کہ بنکوں میں ٹریڈ یونینز پر پابندی نہیں ہوگی۔رضاربانی نے کہا کہ آمرانہ دور میں بنکوں میں ٹریڈ یونینز پر پابندی لگائی گئی۔

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی بل  منظور کرلیا تو پابندی ہٹ جائے گی۔

سی ڈی اے آرڈیننس 1960 میں مزید ترمیم سے متعلق بل سینیٹر رحمان ملک نے پیش کیا۔ رحمان ملک کی طرف سے پیش کیے گئے بل میں کہا گیاہے کہ چیرمین سی ڈی اے کی تعیناتی سے متعلق ابہام ہے،چیرمین سی ڈی اے کےلئے باہر سے لوگ نہ لائے جائیں۔چیرمین سی ڈی اے کےلئے گریڈ 21 یا 22 کا آفیسر ہونا لازمی ہو۔ حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی ۔ ووٹنگ پر بل قائمہ کمیٹی قانون انصاف کو بھجوا دیا گیا۔

اس بل کے حوالے سے حکومت نے موقف اختیار کیا کہ کسی بھی ادارہ کو بہتر بنانے کےلئے باہر سے پروفیشنل لائے جا سکتےہیں۔

سینیٹر رحمان ملک کی جانب سے پیش کیا گیا بل کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

بوڑھے والدین اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور فلاح کا بل 2019  بھی پیش کیا گیا۔ یہ بل سینیٹر رانا مقبول احمد نے پیش کیا۔ بل میں کہا گیاہے کہ والدین جس طرح سے رل رہے ہیں ناقابل بیان ہے۔ انڈیا میں اس بل پر 10 سال سے اطلاق ہو رہا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں والدین کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔اسپتالوں بینکوں میں بزرگوں کے لیے الگ کاؤنٹر ز قائم کیے جائیں۔ بے سہارا بزرگ افراد کے لیے اولڈ ہومز قائم کئے جائیں۔ چیرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو سابق سینیٹر احسان الحق پراچہ کی وفات پر سینیٹ میں دعائے مغفرت کی گئی ۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے دعائے مغفرت کرائی

سینیٹ احسان الحق پراچہ کی وفات پر تعزیتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔

 

 


متعلقہ خبریں