پی ٹی ایم کے خلاف شواہد پارلیمنٹ میں پیش کرنے چاہئیں، جنرل (ر) امجد شعیب


اسلام آباد: دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات تھے اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ خود اس کی نگرانی کریں گے مگر انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس حوالے سے ایک میٹنگ بھی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک ادارہ آپ کو بے لوث قسم کی مدد فراہم کر رہا ہے تو اس پر انگلیاں نہیں اٹھانی چاہئیں، بلاول بھٹو نے ان معاملات پر سیاست تو کرنی ہے کیونکہ ان کا مسئلہ کچھ اور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی حلقوں میں کچھ ایسے سیاستدان موجود ہیں جو جہاں فوج کے خلاف آواز سنتے ہیں وہاں جا کر بیٹھ جاتے ہیں ان کے اپنے کچھ مقاصد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے تمام مطالبات حل کئے جا رہے ہیں مگر بتایا جائے کہ فاٹا کی بات کرتے کرتے پختون تحفظ مومنٹ کہاں سے آ گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی ایم زبان کے نام پر سیاست کر رہی ہے، اس سے قبل ایم کیو ایم بھی ایسا کر چکی ہے،  پی ٹی ایم کے حوالے سے شواہد پارلیمنٹ میں رکھنے چاہیئے اور اس پر بحث ہونی چاہیئے۔

سیاسی معاملات کا حل بھی سیاسی حکومت ہی کرتی ہے، مظہر عباس

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو سیاسی ہے کہ کیا پی ٹی ایم کے حوالے سے حکومت فیل ہو گئی ہے اس لئے فوج اب اس حوالے سے سامنے آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دفاع فوج کا کام ہے اور اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس بجا تھی مگر ملک کے سیاسی معاملات میں فوج کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی معاملات کا حل بھی سیاسی حکومت ہی کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد فوج کرواتی ہے اگر فوج خود اصلاحات کی باتیں کرتی ہےتو اس سے دنیا کو اچھا تاثر نہیں جاتا۔

پی ٹی ایم کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس معاملے کو بہت احتیاط سے لے کر چلنا پڑے گا اگر ان کے خلاف کو سخت کارروائی کی گئی تو نتائج بہت خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے حوالے سے پریس کانفرنس سے قبل بہتر ہوتا کہ یہ سب باتیں ان کیمرہ بریفنگ میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے کی پیش کی جاتیں۔


متعلقہ خبریں