’کم عمری کی شادی، مخالفت کی وجوہات سیاسی‘


اسلام آباد: معروف تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی مدارس کو وزرات تعلیم کے ماتحت کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی بنیاد سیاست ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ویوزمیکرز‘ میں میزبان زریاب عارف کے مدارس کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کہ حکومت نے یہ کام مشاورت سے کیا ہے کیونکہ ان بچوں کو مسائل کا سامنا ہے، نیشنل ایکشن پلان میں بھی اس پر اتفاق کیا گیا۔

تجزیہ کار امتیازگل کی رائے بھی یہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کی بنیاد سیاست ہے کیونکہ ڈھیروں افراد کے لیے مدارس بہت اچھا کاروبار ہیں، یہ لوگ بچوں کو اسلام کے نام پر اکسا کرحکومت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کارعامر ضیاء نے کے مطابق مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف فعال کردار ادا کرنے کے لیے بہت سرگرم ہیں، مدارس اصلاحات پر پہلی بار بات نہیں ہوئی، حکومت نے اس کام کے لیے دوارب 70 کروڑ روپے مختص کیے ہیں،

انہوں نے کہا کہ مولانا کو ان کم آمدنی والے بچوں کے لیے حکومت سے زیادہ فنڈز کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ دین میں مذہبی تعلیم کے علاوہ سائنسی یا کسی بھی طرح کی تعلیم پر پابندی نہیں ہے۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کی وجہ صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی بھی ہے۔ اگر یہی فنڈنگ مولانا صاحب کو براہ راست مل جائے تو وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ پہلی بار حکومت کا حصہ نہ ہونے پرانہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم 14 اگست بھی نہیں منائیں گے۔

پروگرام میں شریک مہمان عاصمہ ودود کا تجزیہ تھا کہ مولانا فضل الرحمان انہی بینادوں پر سیاست کرتے ہیں۔ مدارس کے بچوں کو مرکزی دھارے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بچوں کی شادی پر پابندی کا ترمیمی بل پیش کیا جسے قومی اسمبلی نے بھی منظور کرلیا ہے، جے یو آئی(ف) اور جماعت اسلامی کے اراکین نے اس بل کی مخالفت کی اوراحتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ سوال یہ تھا کہ ان دونوں جماعتوں کی جانب سے کم عمری کی شادی کی حمایت درست ہے۔

اس پر جواب دیتے ہوئے جنرل (ر)امجد شعیب نے کہا کہ بچوں کی نشوونما اور تعلیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے 18 سال سے پہلے بچوں کی شادی ناانصافی ہے۔

امتیاز گل کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کی حمایت ناجائز ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مولانا مفتی محمود نے اپنی آخری شادی پندرہ سالہ بچی سے کی تھی۔

سینئر صحافی عامر ضیاء نے کہا کہ کم عمری میں بچوں کی شادی مذہبی نہیں بلکہ سماجی مسئلہ ہے، یہ بچوں کے ساتھ ناانصافی اورظلم ہے اور آبادی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا مذہبی جماعتوں کو سماجی انصاف کے لیے بڑھ چڑھ کرحصہ لینا چاہیے۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ جب تک خاتون تیار نہیں ہو گی تو وہ گھرکیسے چلا سکتی ہے، عورت معاشرے کی بنیاد ہے اس کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے۔

اطہرکاظمی نے اس معاملے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتوں نے یہ تاثر دے کر مخالفت کی کہ یہ فیصلہ مغرب کے دباؤ پر ہو رہا ہے حالانکہ امریکہ میں 49 ریاستوں میں کم عمری میں شادیاں ہو سکتی ہیں، برطانیہ اور جرمنی میں شادی کی عمر سولہ سال ہے۔ یہ مغرب کے دباؤ پر نہیں بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کر رہے ہیں، یہ مذہبی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے فوجداری مقدمات بھی درج کرنے کی تجویز دی۔

پروگرام کے اگلا سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نتیجہ خیزمذاکرات سے پاکستانیوں کی زندگی مشکل ہوگی۔ اس کے جواب میں تمام مہمانوں نے مثبت میں جواب دیا تاہم اطہرکاظمی نے یہ نقطہ اٹھایا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے پاس نہیں آتا بلکہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ موخر کرنے کے حوالے سے تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ حکومت اسے کچھ عرصے کے لیے التواء میں رکھ سکتی ہے لیکن عالمی منڈی میں بڑھتی قیمتیں اور معیشت کی صورتحال کے باعث اسے عوام تک منتقل کرنا ہو گا جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات بڑھیں گی اور ردعمل میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔


متعلقہ خبریں