بھارتی فوج: ایسا دعویٰ کردیا جسے بھارتی بھی ماننے پر آمادہ نہیں

بھارتی فوج:ایسا دعویٰ کردیا جسے بھارتی بھی ماننے پر آمادہ نہیں

نئی دہلی: بھارتی افواج نے کوہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر پائے جانے والے ’فرضی و خیالی وحشی انسان‘ کے قدموں کے نشانات دیکھنے کا دعویٰ کرکے ایک مرتبہ پھر خود کو مذاق کا نشانہ بنوالیا ہے۔

انڈین آرمی کی جانب سے کچھ عرصہ قبل پاکستان ایئرفورس کا ایک جدید لڑاکا طیارہ ایف -16 گرانے کا بھی مضحکہ خیز دعویٰ سامنے آیا تھا جس کی پوری دنیا نے تردید کی اور نتیجتاً بھارتی فوج کا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر مذاق بنا۔

اس سے قبل وہ سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے سینکڑوں پاکستانیوں کو جاں بحق کرنے کا بھی جھوٹا دعویٰ کر چکی تھی۔ اس اسٹرائیک میں چند درختوں کو بھارتی فضائیہ نے ضرور زخمی کیا تھا اور جب ذرائع ابلاغ نے جائے وقوع کا دورہ کیا تو انہیں وہاں ایک کوے کی لاش کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر 60 لاکھ فالوورز کی تعداد رکھنے کا دعویٰ کرنے والی بھارتی فوج اس وقت پوری دنیا میں مذاق کا نشانہ بنی جب انڈین آرمی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چند ایسی تصاویر شیئر کی گئیں جن کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی فوج کی ایک کوہ پیما ٹیم کو ہمالیہ میں مکالو بیس کیمپ کے علاقے میں برف پر ’تصوراتی و خیالی وحشی انسان‘ کے قدموں کے نقوش ملے ہیں۔

یہ خیالی وحشی انسان عرف عام میں ’ژیٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا کی دیو مالائی داستانوں اور لوک کہانیوں کا کردار ‘ژیٹی’ دراصل ایک گوریلا ہے جو بڑے سائز کا ہے۔ آج تک سائنس اور ماہرین حیاتیات اس کی موجودگی کے اثرات دریافت نہیں کرسکے ہیں مگر فرضی کہانیوں کا یہ ایک ’لازمی‘ کردار ہے اور پراسراریت سے بھرپورہونے کی وجہ سے اپنے اندر ایک کشش بھی رکھتا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ بھارتی افواج کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کو خود بھارتی بھی قبول و تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے بھی اپنی فوج کے دعوے کو مذاق کا نشانہ بنا کر اس کا مضحکہ اڑانا شروع کردیا ہے۔

مقبوضہ وادی چنار کی اسمبلی کے رکن شاہ فیصل جو سابق ڈائریکٹر ایجوکیشن کشمیر بھی رہے ہیں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کیے جانے والے دعوے کے جواب میں لکھا کہ ’’ قدموں کے یہ نشان بتاتے ہیں یہ ‘ژیٹی’ لنگڑا تھا اور اس کی دوسری ٹانگ بالاکوٹ میں کیے گئے فضائی حملے میں ضائع ہو گئی تھی‘‘۔

بھارتی فوج کے سابق افسر تارن وجے نے کی جانے والی ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بہت مبارک ہو، ہمیں آپ پر فخر ہے مگر براہ کرم، آپ انڈین ہیں اس لیے ژیٹی کو وحشی نہ کہیں۔ عزت دیتے ہوئے ‘برفانی انسان’ بھی کہہ سکتے ہیں‘‘۔

یدرا نامی ایک اور ٹوئٹر صارف نے فوج کی ژیٹی والی تصویری ٹویٹ پر تبصرہ کیا کہ ’’مودی جی کو ووٹ دینے باہر آیا ہوگا ‘‘۔

مؤقر بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق ‘ژیٹی’ کے قدموں کے نشانات 9 اپریل کو دریافت ہوئے تھے لیکن بھارتی فوج مفروضوں میں موجود ‘ژیٹی’ کے قدموں کے نشانات سے مشابہت کے بعد پیر کو یہ تصویرٹوئٹر کے ذریعے دنیاکے سامنے لائی ہے۔

بھارتی فوج نے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم پر کہا ہے کہ تمام ثبوت و شواہد متعلقہ ماہرین کے سپرد کردیے گئے ہیں۔

بھارت کی فوج کی جانب سے یہ مؤقف بھی سامنے آیا ہے کہ تصاویر اس لیے سامنے لائے ہیں کہ ماحول سے متعلق لوگوں میں دلچسپی پیدا کی جاسکے۔

قصے کہانیوں میں ژیٹی ایسا مہلک برفانی گوریلا ہے جو کوہ ہمالیہ کے بالائی علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ بھی عموماً کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے اسے بھارت، نیپال اور بھوٹان کے علاقوں میں دیکھا ہے مگر تاحال اس کا کوئی ثبوت دنیا میں پیش نہیں کیا جاسکا ہے مگر کہانیوں میں ضرور موجود ہے۔

2011 میں 50 سال قبل نیپال سے لندن بھیجی جانے والی ‘ژیٹی’کی انگلی کا ڈی این اے کیا گیا تھا جو رپورٹ کے مطابق انسانی ہڈی تھی۔ برطانوی محقق اس سے قبل ژیٹی کو بھورے رنگ کا ریچھ بتا چکے تھے۔

2013 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر برائن سائیکس نے بالوں کے کچھ نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا تھا کہ وہ برفانی ریچھ کے بالوں سے ملتے جلتے ہیں۔

پروفیسر برائن سائیکس کا کہنا تھا کہ اس مفروضے کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ جانور برفانی ریچھ اور بھورے ریچھ کی نسل سے ہی تعلق رکھتا ہے۔


متعلقہ خبریں