پی ایس ڈی پی منصوبوں کی لاگت میں ہوشربا اضافے کا انکشاف

پی ایس ڈی پی منصوبوں کی لاگت میں ہوشربا اضافے کا انکشاف

اسلام آباد: سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت جاری منصوبوں کی لاگت ابتدائی تخمینوں سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

سینیٹ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات مخدوم خسرو بختیار نے اعتراف کیا کہ 2018-19 کے مالی سال کے دوران 822 منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کیے گئے ہیں جن میں سے 134 منصوبوں کے اخراجات اپنی ابتدائی لاگت سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر منصوبوں کا آغاز گزشتہ حکومتوں کے دور میں ہوا تھا اور رواں مالی سال میں بھی ان کے لیے اخراجات مختص کیے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق نیو گوادر ایئرپورٹ کی منظوری 21 جنوری 2010 کو دی گئی اور اس کا ابتدائی تخمینہ 7 ارب 67 کروڑ تھا تاہم 12 فروری 2015 میں اسے بڑھا کر 22 ارب 24 کروڑ کر دیا گیا۔

تفصیلات میں بتایا گیا کہ کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا تخمینہ 16 ارب سے ساڑھے 24 ارب تک پہنچ چکا ہے، ایکسپریس وے خانیوال ساڑھے 28 ارب سے بڑھ کر 54 ارب روپے، لواری روڈ ٹنل اور ملحقہ سڑکوں کا منصوبہ 8 ارب سے تقریباً 27 ارب تک، قلعہ سیف اللہ لورالائی روڈ اور ژوب مغل کوٹ کا منصوبہ 31 ارب روپے سے بڑھ کر 50 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

سینیٹ میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق پشاور ناردرن بائی پاس کی لاگت کا ابتدائی تخمینہ 3 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 9 ارب روپے، ڈیزل الیکٹرک ریلوے انجن 12 ارب 70 کروڑ سے تقریباً 48 ارب 890 کروڑ تک پہنچ گیا۔ ان تمام اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو قومی خزانے پر کھربوں روپے کا اضافی بوجھ آ رہا ہے۔

وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ لاگت بڑھنے کی وجوہات میں ابتدائی ڈیزائن میں نقائص، لاگت کا غلط تخمینہ، عملدرآمد کے مرحلے پر منصوبے کے دائرے میں تبدیلی، مالی مسائل کی وجہ سے بجٹ میں کٹوتی اور روپے کی قدر میں تبدیلی شامل ہیں۔

وفاقی وزیر نے وضاحت کی کہ ایک نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے مطابق کوئی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا جس کے لیے پہلے سال ہی 20 سے 25 فیصد رقم مختص نہیں کی گئی ہو تاکہ اسے چار سے پانچ سال کے اندر مکمل کیا جائے۔


متعلقہ خبریں