’مسعود اظہر پر سلامتی کونسل کا فیصلہ پاکستان کو فائدہ دے گا‘

’مسعود اظہر پر سلامتی کونسل کا فیصلہ پاکستان کو فائدہ دے گا‘

اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسعود اظہرکا نام سلامتی کونسل کی پابندی فہرست میں شامل ہونا مستقبل میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ویوز میکرز‘ میں اس معاملے پر اظہارخیال کرتے ہوئے تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ بھارت ہمیشہ کشمیری جدوجہد کو دہشتگردی سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اس ضمن میں بھارت کی ناکامی پاکستان کے لیے کامیابی ہے۔

سینئر تجزیہ کارعامرضیاء کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت کو بھارت اور پاکستان دونوں ہی اپنی کامیابی قراردیں گے، انتخابی مہم میں اس کا بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ پاکستان کو مستقبل میں فائدہ ہو گا۔ مسعود اظہراپنے کیے کے خود ذمے دارہیں یہ دنیا کو باور کرانا پاکستان کی کامیابی ہے اور اس سے کشمیری فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

پروگرام میں شریک مہمان حافظ طارق نے کہا کہ بھارت اور امریکہ مسعود اظہر کو پلوامہ حملے اور کشمیری جدوجہد سے جوڑنا چاہتے تھے جس میں انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ اس پابندی سے پاکستان کو کسی بھی طرح کا نقصان نہیں ہوگا۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی نے کہا کہ یہ پاکستان کی فتح نہیں بلکہ ناکامی ہے، کسی ملک کے شہری کو اقوام متحدہ کا دہشتگردی کی فہرست میں شامل کرنا اس ملک کے لیے کسی بھی طرح کامیابی نہیں کہلائی جا سکتی۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے مثبت پیش رفت ہے کہ ہم دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ ہم غیرذمہ دار ملک نہیں ہیں، اگر کوئی شہری ایسا کرتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی ہمدردی بھی نہیں ہے۔

پروگرام کا دوسرا سوال افغان سرزمین سے سرحد پر حملے کے بارے میں پاکستانی موقف کے بارے میں تھا۔ اس موضور پر جنرل (ر) امجد شعیب کی رائے تھی کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین مسلسل استعمال ہورہی ہے، پاکستان کو اس معاملے کو نہ صرف افغانستان کے سامنے سختی سے اٹھانا چاہیے بلکہ امریکہ سے بھی بات کرنی چاہیے۔

عامر ضیاء کے خیال میں افغان حکومت اس طرح کے واقعات کی ذمہ دار ہے، پاکستان کو اسے سفارتی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھانا چاہیے اور یہ پیغام دینا چاہیئے کہ ہم افغانستان میں امن کا قیام چاہتے ہیں لیکن وہاں سے دہشتگردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

حافظ طارق نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہوتی رہی ہے۔ جیسے دنیا دہشتگردی کے معاملات پر ہم پردباؤ ڈالتی رہی ہے، ہمیں بھی اس معاملے پر افغانستان اور دنیا کو آگاہ کرنا چاہیے کہ اس سے ہم متاثر ہورہے ہیں۔

اطہرکاظمی کا تجزیہ تھا کہ افغانستان سے گلہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، انہوں نے یہ معاملہ اتحادی افواج کے سامنے اٹھانے کی تجویز دی۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ افغانستان میں امن سے وہاں کی حکومت کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا اس لیے ضروری نہیں کہ وہ پاکستان کے معاملہ اٹھانے پر تعاون بھی کریں۔

پروگرام کا اگلا سوال پی ٹی آئی کے یوم تاسیس پر عمران خان کا این آراو نہ دینے کے اعلان کے متعلق تھا۔ اس کے جواب میں حافظ طارق کا کہنا تھا کہ عمران خان نو ماہ کے باوجود اپوزیشن کے موڈ میں ہیں، اس بیانیے سے ہٹ کر بات کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔

عامر ضیاء نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے باربار اس اعلان سے ان کے حامی خوش ہوتے ہیں لیکن انہیں اس معاملے پر بہت زیادہ بات نہیں کرنی چاہیئے۔

اسی معاملے پر جنرل (ر) امجد شعیب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں این آراو کی بات چلتی رہتی ہے اس لیے عمران خان اس تاثر کو رد کرنے کے لیے باربار یہ یقین دہانی کراتے ہیں۔

اطہرکاظمی کی بھی رائے یہی رہی کہ یہ عمران خان کا اہم بیانیہ ہے اور وہ اسے کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں جبکہ عاصمہ ودود نے کہا کہ عمران خان کا ووٹر جب ان سے سوال کرتا ہے تو وہ اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں اور اسے پورا کریں گے۔

پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک کا صوبائی وزیربننا اور اس خاندان کے آٹھ افراد کا اہم عہدوں پر پہنچ جانا پروگرام کا آخری موضوع تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا تحریک انصاف کو بھی موروثی سیاست نے یرغمال بنالیا ہے؟ اس پر عامر ضیاء نے کہا کہ سیاست کا یہی المیہ ہے کہ انتخابی سیاست کچھ خاندانوں میں گھوم رہی ہے، پارلیمنٹ پہنچنے والوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے،عمران خان خود یہ سیاست نہیں کررہے لیکن ان کی جماعت کی بنیاد یہی ہے۔

اطہرکاظمی نے کہا عمران خان نے اس کے خلاف ووٹ لیے، ان کے پرانے ساتھیوں نے انہیں مایوس کیا جس پرکابینہ بھی بدلی، انہوں نے عمران خان کونقصان کی ایک وجہ اسے بھی قرار دے دیا۔

حافظ طارق نے کہا کہ باقی جماعتوں اور تحریک انصاف میں فرق صرف عمران خان کا ہے جبکہ امجد شعیب نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ تحریک انصاف باقی جماعتوں سے مختلف ہے، اس میں شامل ہونے والے لوگ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوتے۔


متعلقہ خبریں