چیئرمین پی اے سی کی تبدیلی کا معاملہ، این آر او کا تاثر مضبوط ہوا، عامر ضیاء


اسلام آباد: سینئر صحافی عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تبدیل کر کے ڈیل کا تاثر مضبوط کیا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ویوز میکرز‘ میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت این آر او تو نہیں دے سکتی کیونکہ یہ اختیار آمروں کے پاس ہوتا ہے لیکن جو کچھ سامنے ہے اس سے ڈیل کا تاثر مل رہا ہے۔

ایئرمارشل (ر) شاہد لطیف نے اس موضوع پر رائے دی کہ یہ معاملہ این آر او کا نہیں بلکہ شریف برادران کے فرار ہونے کا منصوبہ ہے، ماضی میں این آر او کے اثرات قوم آج بھی بھگت رہی ہے، جو بھی باہر جاتا ہے وہ واپس نہیں لوٹتا۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ ن لیگ چیخ چیخ کر این آر او مانگ رہی ہے، شہبازشریف جب سے لندن گئے ہیں اپنی بیماری کی خبریں لگوا رہے ہیں، ن لیگ نے پی اے سی کا چیئرمین تبدیل کر کے حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے اب آپ کچھ تعاون کریں۔

پروگرام کے مہمان ابراہیم راجہ کا تجزیہ تھا کہ شہبازشریف ہمیشہ مفاہمت کی بات کرتے رہے ہیں، اس وقت ن لیگ حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے۔ شہبازشریف کی اہم حلقوں سے بات چیت چل رہی ہے۔

پروگرام می شریک تجزیہ کار عاصمہ ودود کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ کچھ ضرور ہو رہا ہے۔

نیب کے کالے قانون ہونے کے بارے میں سوال پر ایئرمارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ احتساب ملک کے بہت ضروری ہے تاہم قانون میں اصلاحات ضروری ہیں، اگر قانون میں سقم ہوں تو ملزموں کو کیچڑ اچھالنے کا موقع ملتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ نیب کالا قانون نہیں، اسے یہ نام دینے والے لوگ  خود نیب کی زد میں ہیں، اس ادارے کی سزا دلوانے کی شرح 77 فیصد ہے جو بہت عمدہ ہے.

ابراہم راجہ کے مطابق نیب ویسا ہی ادارہ ہے جیسا نوازشریف نے احتساب کمیشن بنایا تھا اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہی کام پرویز مشرف نے کیا، نیب کالا قانون اس لیے ہے کہ 90 دنوں کا ریمانڈ اور گرفتاری جیسے بہت سے تضادات اس میں موجود ہیں۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن کیا نیب نے جعلی اکاؤنٹس کھلوائے یا منی لانڈرنگ کی؟ عوام احتساب چاہتے ہیں۔

عاصمہ ودود نے نیب کے بارے میں کہا کہ جمہوریت میں احتساب ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اختیار کے ساتھ جواب دہی بہت ضروری ہے، نیب کالا قانون کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔

ویوز میکرز میں تیسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا پرویز مشرف اگلی سماعت پر پاکستان میں ہوں گے۔ اس کے جواب میں ایئر مارشل شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کا مقدمہ مضبوط ہے، انہیں پاکستان آ کر اسے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیئے۔

عامر ضیاء نے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن وہ بیمار ہیں، حالات ایسے ہیں کہ طبیعت کی بحالی کے باوجود وہ پاکستان نہیں آئیں گے۔

اطہر کاظمی کا تجزیہ تھا کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے کیونکہ مشرف کے سیاسی رفقا حکومت میں بیٹھے ہیں جبکہ ایک شخص پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اگر آرٹیکل 6 کا اطلاق کرنا ہے تو سب پر کریں ورنہ مقدمہ خارج کر دیں۔

ابراہم راجہ کے مطابق اگلی پیشی ہر مشرف پاکستان میں نہیں ہوں گے جبکہ عاصمہ ودود نے بھی اسی رائے کی تائید کی۔

آخری سوال رمضان میں دفاتر دیر سے شروع کرنے کے فیصلے کے بارے میں تھا۔ اطہر کاظمی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری دفاتر ویسے بھی کام نہیں کر رہے، حکومت عوام کو سہولت دینا چاہتی ہے لیکن یہ مہینہ سہولت کے لیے نہیں ہوتا، ہر کسی کو نارمل انداز میں کام کرنا چاہیئے۔

ابراہم راجہ کی رائے تھی کہ جو کام نہیں کرنا چاہتا وہ رمضان کا بہانہ بنا لے گا لیکن اس فیصلے سے سائلین کو فائدہ ہو گا کیونکہ وہ دور سے بھی سرکاری دفاتر پہنچ جائیں گے۔

عامر ضیاء نے کہا کہ شاید یہ تحریک انصاف کے کسی ایسے شخص کا مشورہ ہے جو دیر سے سو کر اٹھنے کا عادی ہے، اب لوگ گرمی میں دفاتر جائیں گے اور گرمی میں ہی واپس آئیں گے۔ پہلے والا وقت بہتر تھا۔

ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ اس فیصلے نے عوام کے لیے آسانی کے بجائے مشکل پیدا کر دی ہے، اس پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔

عاصمہ ودود کی رائے بھی یہی تھی کہ اس فیصلے سے کارکردگی متاثر ہو گی، بہتر ہوتا اگر حکومت جلدی شروع کرتی اور جلد ہی ختم کردیتی۔


متعلقہ خبریں