بجلی کے بلوں پر نیلم جہلم سرچارج ختم کرنے کا اعلان

سینیٹ کی خالی نشست پر پولنگ کا عمل جاری

اسلام آباد: وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں پر وصول کیا جانے والا نیلم جہلم سرچارج ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ایوان بالا کے سامنے تفصیلات پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سرچارج 30 جون کو ختم کر دیا جائے گا، اس مد میں اب تک 64 ارب روپے وصول کئے جا چکے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی تفصیلات بھی ایوان بالا میں پیش کی گئیں جن کے مطابق حکومت پٹرول پر ٹیکسز کی مد میں 26 روپے 50 پیسے فی لٹر وصول کر رہی ہے جبکہ ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں 9 روپے 84 پیسے فی لٹر وصول کئے جا رہے ہیں۔

ایوان بالا میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل پر فی لٹر 39 روپے 96 پیسے فی لٹر ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل پر ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں 7 روپے 21 پیسے فی لٹر وصولی کی جا رہی ہے۔

ایوان کو بتایا گیا ہے کہ مٹی کے تیل پر حکومت 15 روپے 86 پیسے فی لٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ مٹی کے تیل پر 15 روپے 86 پیسے ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح لائٹ ڈیزل آئل پر 11 روپے 72 پیسے فی لٹر ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ لائٹ ڈیزل آئل پر 2 روپے 38 پیسے فی لٹر ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ بھی لی جا رہی ہے۔

حکومتی دستاویز کے مطابق پٹرول کی قیمت خرید 62 روپے 55 پیسے اور قیمت فروخت 98 روپے 89 پیسے فی لٹر ہے۔ ڈیزل کی قیمت خرید 70 روپے 26 پیسے اور قیمت فروخت 117 روپے 43 پیسے فی لٹر ہے۔

یہ بھی پڑھیے:سینیٹ اجلاس: منی بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید، حکومت کی وضاحت

اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت خرید 69 روپے 65 پیسے اور قیمت فروخت 89 روپے 31 پیسے فی لٹراور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت خرید 66 روپے 44 پیسے اور قیمت فروخت 80 روپے 54 پیسے فی لٹر ہے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے وقفہ سوالات میں ایوان بالا کو بتایا کہ سمندرمیں آف شور ڈرلنگ جاری ہے۔ 4800 میٹرڈرلنگ ہو چکی جبکہ 5 ہزار ہونا باقی ہے۔ آئندہ  3 سے 4 ہفتوں میں پتہ چل جائے گا کہ یہاں تیل موجود ہے یا گیس۔

توانائی ڈویژن نے  بجلی چوری سے نقصانات اور کارروائیوں کی تفصیلات بھی ایوان بالا میں پیش کیں۔ سینیٹ کو بتایا گیا کہ رواں سال ملک بھر میں بجلی چوری سے قومی خزانے کو 30 کروڑ 27 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

بجلی چوری میں ملوث 219 ملازمین کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ اس ضمن میں پیسکو ملازمین سب سے آگے ہیں۔سینیٹ میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق  پیسکو کے 72 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔

میپکو کے 40، فیسکو کے 32، کیسکو کے 23 اور ٹیسکو کے 11، گیپکو کے 18 اور لیسکو کے 27 ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ حیسکو کے 16 اور سیپکو کے 24 ملازمین بجلی چوری میں ملوث نکلے ہیں۔

آئیسکو نے بجلی چوری کے باعث نقصانات پر قابو پانے کا دعوی کیا ہے۔ آئیسکو کی طر ف سے ایوان کو بتایا گیا ہے کہ بجلی چوری کے حوالے سے ادارے کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔  تاہم ایوان میں پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق آئیسکو کے 28 ملازمین بجلی چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔


متعلقہ خبریں