اردو زبان کی ترویج: پنجاب اسمبلی سپریم کورٹ کے احکامات نظرانداز کر رہی ہے

تحفظ بنیاد اسلام بل

فوٹو: فائل


لاہور: پنجاب کے اداروں میں تاحال سرکاری کارروائی اردو زبان میں شروع نہیں  کرائی جاسکی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا قانون ساز ادارہ یعنی پنجاب اسمبلی اس حوالے سے   سپریم کورٹ کے احکامات  کو بھی نظراندازکررہا ہے ۔

اپوزیشن اراکین اسمبلی نے کہاہے کہ انگریزوں سے ملک کو آزادی ملے لگ بھگ 70سال کا وقت گزر گیا ہے لیکن انگریزی زبان سے تاحال آزادی نہیں مل سکی ۔ پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی سرکار نے اردو میں قانون سازی کو نہیں  اپنایااور اسمبلی میں پیش ہونے والے قانونی مسودہ جات انگریزی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ 

پنجاب اسمبلی کے ممبران  کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں اراکین کے صرف سوالات  اور قراردادیں ہی  اردو میں پیش کیے جاتے ہیں۔ 

ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی  قانون ساز اسمبلی میں آدھے سے زیادہ اراکین انگریزی زبان سے بالکل نابلد ہیں۔اسی لیے انگریزی زبان میں آنے والے قوانین کے مسودوں کو اراکین اسمبلی کی طرف سے پڑھا ہی نہیں جاتا۔ 

ایوان کی کارروائی میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ انگریزی زبان میں مسودہ قانون پیش کرنےکی وجہ سے  زیادہ تر اراکین اسمبلی ایوان میں بحث ہی نہیں کرتے۔ 

کچھ اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومت نے اسمبلی میں انگریزی زبان کے ساتھ اردوزبان میں بھی قانونی مسودوں کو اسمبلی میں لانے کا عمل شروع کیا تھا۔

تبدیلی سرکار نے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اردو کی ترویج کا عمل روک دیاہے ۔ 

یہ بھی پڑھیے:لاہور ہاٸیكورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ  تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری

یاد رہے سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے دوہزار پندرہ میں اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات دیے تھے۔

 آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت بھی پندرہ سالوں میں اردو زبان کو ملک میں رائج کیا جانا تھا مگر آئین کے مذکورہ آرٹیکل پر آج تک عملدرآمد ممکن نہ بنایا جاسکا۔ 


متعلقہ خبریں