واشنگٹن اور تہران کے درمیان پیغام رسانی: دونوں کا سخت مؤقف

واشنگٹن اور تہران کے درمیان پیغام رسانی: دونوں کا سخت مؤقف

اسلام آباد: ایران کو واضح پیغام دینے کے لیے امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنا جنگی بحری بیڑا تعینات کردیا تو تہران نے اپنے وزیرخارجہ جواد ظریف کے دورہ روس اور شمالی کوریا کا اعلان کرکے واشنگٹن کو بھی واضح پیغام بھیج دیا۔

امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام دراصل ایران کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے جواب میں اٹھا یا گیا ہے جب کہ ایرانی خبررساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق ایران، امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے اپنا تیل ’گرے مارکیٹ‘ میں فروخت کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لارہا ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکستانی تجزیہ نگار ایس پی سیٹھ نے مقامی انگریزی اخبار میں لکھا ہے کہ موجودہ صورتحال علاقائی سلامتی کے لیے مزید خطرے کا باعث ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ جنگی بحری بیڑے کی تعیناتی امریکی افواج پرممکنہ حملے کے دعوے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

جان بولٹن نے خبررساں ادارے کے مطابق خبردار کیا ہے کہ کسی بھی حملے کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ اپنا ابراہم لنکن جنگی بحری بیڑا اور بمبار ٹاسک فورس امریکی سینٹرل کمانڈ کی حدود میں تعینات کررہا ہے تاکہ ایرانی قیادت کو واضح پیغام جائے کہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی بھی اقدام پرسخت جواب دیا جائے گا۔

جان بولٹن نے واضح کیا کہ امریکہ ایران سے جنگ کا خواہش مند نہیں ہے لیکن کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

امریکہ کی جانب سے تعینات کیا جانے والا جنگی بحری بیڑا گزشتہ ماہ سے یورپ میں جاری جنگی مشقوں میں حصہ لے رہا تھا۔ یہ مشقیں امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ ہو رہی ہیں۔

امریکہ نے خلیج میں اپنا بحری جنگی بیڑا پہلی مرتبہ تعینات نہیں کیا ہے اس سے قبل بھی یہ تعیناتی عمل میں آئی تھی بلکہ امریکہ نے اپنی جدید بحری آبدوزیں بھی اس علاقے میں متعین کی تھیں۔

امریکہ کے  صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جو امریکہ اوردیگرعالمی طاقتوں نے ایران سے کیا تھا۔

امریکہ نے گزشتہ سال ایران پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے تیل کی برآمدات انتہائی محدود کردی تھیں۔ امریکہ نے اس ضمن میں چین، بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور ترکی کو اجازت دی تھی کہ وہ آئندہ چند ماہ تک تیل کی خریداری کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرلیں اس کے بعد انہیں بھی تیل ایران سے درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

امریکہ نے گزشتہ ماہ ان ممالک کو واضح پیغام بھیجا تھا کہ اب انہیں دی جانے والی مہلت بھی ختم ہورہی ہے لہذا وہ ایران سے تیل کی خریداری بند کریں اور اس کے ساتھ ہی واشنگٹن نے ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی غیر ملکی فوج کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا گیا۔

ایران کی خبررساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران، امریکہ پابندیوں کے بعد’گرے مارکیٹ‘ میں اپنے تیل کی فروخت کے لیے تمام ممکنہ ذرائع اور وسائل استعمال کررہا ہے۔

ایرانی خبررساں ایجنسی نے یہ بات سرکاری اہلکار زمانینا(Zamaninia) کے حوالے سے بتائی ہے جن کا مؤقف ہے کہ فی الوقت ہم 2.5 ملین بیرل یومیہ تیل فروخت کرنا نہیں کررہے ہیں لیکن ہم نے ایک گرے مارکیٹ ضرور ڈھونڈ لی ہے مگر اس میں فروخت ہونے والے تیل کی مقدار ابھی بتانا نہیں چاہتے ہیں۔

ایران پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے باوجود اپنی تیل کی برآمدات جاری رکھے گا۔

ٹرمپ بیرونی پالیسیوں پر دیگر کو ساتھ لے کر چلیں، جوادظریف

ایرانی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ شمالی کوریا اور روس کے دورے پر بہت جلد روانہ ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پڑوسی ہماری اولین ترجیح ہیں۔

ایران کی جانب سے یہ بات پہلے ہی سامنے آئی تھی کہ اس کے وزیرخارجہ آئندہ دس روز میں روس سمیت دیگر دو پڑوسی ممالک کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے خارجہ کا دورہ شمالی کوریا اس دورے کے جواب میں ہے جو وہاں کے وزیرخارجہ ری یانگ ہو نے اگست 2018 میں تہران کا کیا تھا۔

عالمی سیاسی مبصرین کے خیال میں تہران کا یہ قدم دراصل واشنگٹن کے لیے ایک پیغام ہے کیونکہ ہنوئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان ہونے والی دوسرے ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تھی۔

شمالی کوریا کے سربراہ نے بھی گزشتہ دنوں ماسکو کا غیر متوقع اچانک دورہ کیا تھا جس کے بعد پیانگ یانگ نے میزائل کا بھی تجربہ کیا ہے۔

خطے کی موجودہ صورتحال پر ایک ممتاز عراقی بزنس مین صباح غائیدان نے ایرانی خبررساں ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں دراصل اس امریکی منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ ہر اس ملک کو نشانہ بنا رہا ہے جو سیاسی اور معاشی اعتبار سے خودمختاری اختیار کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے وینزویلا اورایران کی مثالیں پیش کیں۔


متعلقہ خبریں