نجی اسکولوں سے متعلق  آڈٹ رپورٹ  آنکھیں کھول دینے والی ہے،چیف جسٹس

سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم ، فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ نجی اسکولوں  سے متعلق  آڈٹ رپورٹ  آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ہر نجی اسکول کی برانچوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اسکولوں کی فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجازالاحسن بھی تین رکنی بنچ کا حصہ تھے۔

کراچی کے ایک نجی اسکول کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ نجی اسکول فیس میں سالانہ 5 فیصد اضافہ کر سکتے ہیں تاہم 5 فیصد  سے زائد اضافہ ریگولیٹری اتھارٹی کی اجازت سے مشروط ہوتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسا اسکول ہے جس نے فیس میں سالانہ 5 فیصد اضافہ نہ کیا ہو؟کیا کوئی نجی اسکول فیس کے معاملے پر بند ہوا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا نجی اسکولوں  سے متعلق  آڈٹ رپورٹ تو آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ رپورٹ کیمطابق ہر نجی اسکول کی برانچوں میں اضافہ ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ نجی اسکولز داخلہ فیس کے علاوہ بھی اضافی پیسے لیتے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا اگر کوئی اسکول اضافی رقم لیتا ہے تو سندھ حکومت کاروائی کیوں نہیں کرتی؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکولوں کے قوانین کے پیچھے کوئی اسکیم ہو سکتی ہے جس کو ہم نے حل کرنا ہے۔آئین کا آرٹیکل 18 انفرادی نہیں بلکہ انڈسٹری اور اداروں کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت آپ نے انفرادی نہیں بلکہ انڈسٹری کے قوانین بنانے ہیں اس لیے اس کی زبان بھی مختلف ہے۔ اسی لیے آئین سازوں نے آرٹیکل 18 کے لیے بلکل مختلف زبان کا استعمال کیا ہے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا آرٹیکل  دس سے سترہ اور آرٹیکل 19 اور بیس بھی شہریوں کی بات کرتے ہیں۔ صرف آرٹیکل 18 انڈسٹری اور اداروں کے متعلق بات کرتا ہے۔ ریاست کا حق ہے کہ وہ انڈسٹری کو ریگولیٹ کرے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تمام بڑے اسکولوں نے ایک کارٹل بنایا ہوا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا سندھ کے رولز پنجاب سے مختلف ہیں، پنجاب میں چار ہزار سے کم فیس اس سے مستثنیٰ ہے۔ سٹیزن فاؤنڈیشن کے 750 سکول ایسے ہیں جو کہ کم فیس لیتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا نجی اسکول چلانا پیشہ ہے یا کاروبار دونوں کے قانونی معنی موجود ہیں۔پیشے کو لائسنس کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے۔پیشے یا کاروبار کے لیئے تعلیمی قابلیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 5 فیصد سالانہ اضافہ  تین سال تک لاگو ہے جس کا تین سال بعد جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا 5 فیصد اضافے کے بعد بھی سالانہ کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا داخلہ فیس کے ساتھ سیکیورٹی فیس لی جاتی ہے اور ایک عرصہ آپ کے پاس رہتی ہے اس پر ریڑن بنتا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا 5 فیصد کا اضافہ بھی حکومت کی منظوری کے بعد ملتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سترہ ہزار اسکولوں میں کوئی ایک اسکول ہے جس نے  5 فیصد سے کم فیس میں اضافہ کیا ہو؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ 5 فیصد اضافے کا نہیں بلکہ اس کے وقت کا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کوئی قانون بغیر کسی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیے:کئی  نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، چیف جسٹس پاکستان

مخدوم علی خان نے کہا اگر کوئی ایک سال کے بعد پانچ فیصد اضافے کی وجوہات نہ دے سکے تو اضافہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی پانچ فیصد سے زائد اضافے کی وجوہات بیان کرے تو اس کو پانچ فیصد سے زیادہ بڑھانے کی اجازت ہونی چاہیے۔


متعلقہ خبریں