پاکستانی نوجوانوں بڑے ذہنی امراض کا شکار

زہنی دباو صحت کے علاوہ دماغ کے لیے بھی مظہر ہے،ریسرچ|humnews.pk

پاکستان میں ذہنی امراض کو تسلیم کرنا تو دور کی بات اس متعلق بات کرنے سے بھی لوگ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ ذہنی امراض پرگفتگو کو ٹیبو یعنی ممنوع سجھنا ہے اس بات سے قطع نظر کے اس وقت ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے نوجوانوں کو کئی ایسے خطرناک ذہنی امراض کا سامنا ہے جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستان کی 50 فیصد سے زائد کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک کے مستقبل کا دارو مدار انہیں پر ہے لیکن ان کے مسائل اورخاص کر ذہنی مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

کیا آپ جانتے ہیں ڈپریشن اور جذباتی صدمات کی آخری حد خودکشی ہے اورہر برس نوجوانوں کی بڑی تعداد ان امراض کے باعث خودکشی کر لیتی ہے۔

ویسے تو ذہنی امراض بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن دور حاضر میں ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزوفرینیا، جذباتی صدمات اور  ڈرگ کا حد سے زیادہ استعمال کا شمار ان ذہنی امراض میں کیا جارہا ہے جو نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کررہے ہیں۔

ڈپریشن:

خودکشی ڈپریشن کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں خودکشی کرنے والے کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں دیا گیا اور ڈیپریشن کے مرض میں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر کوئی شخص دو ہفتے تک مسلسل روزمرہ معاملات میں دلچسپی لینا چھوڑ دے  اور اداس رہے تو وہ ذہنی دباؤ یعنی ڈیریشن کا شکارہے۔

ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہے۔ سروے رپورٹ کے اعداد و شمارکے مطابق 36 فیصد افراد میں ڈپریشن کی علامات موجود ہیں جو ایک تشویشناک بات ہے۔

جذباتی صدمات:

ایسا کوئی بھی صدمہ جس میں انسان جسمانی طور پر تو ٹھیک اور صحت مند دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا ذہن اور ذہن کے جذبات و احساسات کا حصہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بہت ساری باتوں کی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے۔ انسان ایسے صدمات سے خود بھی باہر آسکتا ہے لیکن اگر وہ ایک ماہ تک اس نہ نکل سکے تو وہ پی ٹی ایس ڈی کا شکار سمجھا جاتا ہے۔

ایک مطالعہ کے مطابق جذباتی صدمات یا (Post Traumatic Stress Disorder) کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت غیر متوقع طور پر اپنے پیار کرنے والوں کو کھو دینے یا ان کے چھوڑ کر چلے جانے کے باعث اس ذہنی عارضے میں مبتلا ہوتی ہے۔

ماہرنفسیات کے مطابق جب کسی انسان کو کوئی دکھ یا صدمہ پہنچتا ہے تو اس کے دماغ میں موجود نیورونز کا توازن بگڑ جاتا ہے اور انسان ہر کام سے دور ہو کر تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے جبکہ بظاہر وہ بالکل ٹھیک نظر آتا ہے لیکن اندر ہی اندر وہ ڈپریشن کا شکار ہو رہا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صدمات اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ اگر ان کا درست وقت پر تدارک نہ کیا جائے تو یہ انسان کو مختلف ذہنی امراض میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں اور انسان خود کو ختم بھی کرسکتا ہے۔

شیزوفرینیا:

اس ذہنی مرض کا شکار افراد کو ناصرف مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں بلکہ خوفناک چیزیں بھی دکھائی دیتی ہیں اور سب ان کے ذہن کے بنائے ہوئے مفروضے ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں اسے جنات کے اثرات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر 16 سے 30 برس کی عمرمیں پایا جاتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں غربت، بے روزگاری، بدامنی اور جنسی ہراسگی کے باعث اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ ملک کی اکثریت اس مرض سے لاعلم ہے۔

 بائی پولر ڈس آرڈر:

بائی پولر ڈس آڈر بنیادی طور پر ایک ذہنی عارضہ ہے جس میں انسان اپنے موڈ پر کنڑول نہیں رکھ پاتا اور اس کے باعث انسان کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اسے موڈ ڈس آڈر بھی کہا جاتا ہے۔

اس مرض کا شکار انسان بظاہر تو بالکل صحت مند اور نارمل نظر آتا ہے لیکن ذہنی طور پر وہ سخت انتشار اور بے سکونی کا شکار ہوتا ہے جبکہ لوگ اسے بدتمیز اور کبھی کبھی پاگل جیسے لقب سے پکارتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کے ہوسکتا ہے کہ اس شخص کو کسی ماہر نفسیات، ہمارے اچھے رویے اور ساتھ کی ضرورت ہو۔

دنیا بھر میں 2.4 فیصد افراد موڈ ڈس آڈر کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کیے گئے سروے کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں  14.3 فیصد بائی پولر ڈس آڈر پایا جاتا ہے جس کی وجوہ میں جذباتی صدمات اور اسٹریس قابل ذکر ہیں۔

ان ذہنی امراض سے ٹمٹنے کے لیے آگاہی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی امراض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کے باعث تباہ ہورہی ہے۔ ذہنی امراض سے آگاہی کے لیے حکومت کی جانب سے آگاہی پروگرامز کا آغاز ہونا چاہیئے تاکہ ان پر قابو پایا جاسکے۔

ٹیبو (Taboo) کیا ہوتا ہے؟

ٹیبو سے مراد کسی بھی معاشرے میں کوئی ایسا لفظ یا موضوع جس پر بات کرنا ممنوع ہو یا اس پربحث کرنا برا سمجھا جاتا ہو۔ پاکستان میں بھی عام لوگوں میں ذہنی امراض پر بات کرنا باعث شرم یا شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں