’رویت ہلال کمیٹی کو ختم کرکے چاند سائنسی بنیادوں پر دیکھا جائے‘



اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کرکے چاند دیکھنے کی ذمہ داری سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کا وقت آگیا ہے۔

پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری جہاں جاتے ہیں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تاہم رویت ہلال کمیٹی کے خاتمے سے متعلق ان کی بات منطقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم اس بحث میں الجھے ہیں کہ چاند کیسے اور کس نے دیکھنا ہے، یہ کام اگر محکموں کو دے دیا جائے تو اچھا ہے۔ مذہبی طبقے کا رویہ غیر منطقی ہے اس معاملے پر ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ ہمارے ملک میں مختلف لوگوں نے اپنے کام سے الگ ذمہ داریاں لی ہوئی ہیں اور چاند دیکھنے کی ذمہ داری ان کے پاس ہے جنہیں ہاتھوں کی لکیریں نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے ایسی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے کہ اگر یہ اس دور میں ہوتے تو نیل آرم اسٹرانگ کو بھی چاند پر نہ جانے دیتے، اگر اس معاملے پرکوئی حل نکلتا ہے تو اچھی بات ہے۔

تجزیہ کارامجد شعیب نے کہا کہ موجودہ دور میں علماء کئی معاملات میں جدت اپنا چکے ہیں، اس سلسلے میں بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، سائنس دان جب سورج گرہن اور چاند گرہن کی اطلاع دیتے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو اس معاملے پر بھی نہیں ہونا چاہیے۔

تجزیہ کار امبرین قریشی کی رائے تھی کہ فواد چوہدری کو یہ بات سمجھ داری سے کرنی چاہیے تھی، علماء کو ان کی جائز اہمیت ملنی چاہیے، رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت ہے بے شک چاند سائنس کے ذریعے سے دیکھ لیں۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے کہا کہ ہمارے ہاں یہ بحث ہورہی ہے تو مذہبی طبقے کے تحفطات کو بھی دور کیا جانا چاہیے، وزیر کو کوئی بھی بات ذمہ داری سے کرنی چاہیے تاکہ اس پر مثبت بحث ہو، ایسے معاملات زبردستی نہیں بلکہ اتفاق سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

برطانیہ کے قومی بینک کا جس شخص کو گورنر لگایا گیا وہ کینیڈا کے شہری ہے، اطہرکاظمی

پروگرام کے دوران سوال کیا گیا کہ کیا پی ٹی آئی حکومت آئی ایم ایف کے نامزد کردہ لوگ لے آئی ہے تو اس پر عامر ضیاء نے کہا کہ ہمارے ہاں اکثر معاملات میں مبالغہ آرائی کی جاتی ہے اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے، رضا باقر بیرون ملک سے آنے والے پہلے شخص نہیں ہیں بلکہ ڈاکٹر یعقوب، عشرت حسین، شمشاد اختر اور شوکت عزیز کو دیگر جماعتیں بھی لائی ہیں، پاکستانیوں کا عالمی اداروں میں کام کرنا فخر کی بات ہے اور آئی ایم ایف ہمارے پاس نہیں آیا بلکہ ہم اس کے پاس گئے ہیں۔

تجزیہ کارامجد شعیب کا کہنا تھا کہ بیرون ملک میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے لوگوں کے ہنر سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن جنہوں نے ساری زندگی پاکستان میں معیشت کے شعبے میں کام کیا، وہ یہاں کے حالات بہتر سمجھتے ہیں انہیں ترجیح دی جانی چاہیے، بہتر ہوتا حکومت باہر کے لوگوں کو اہم عہدوں پر نہ لگاتی۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی کی رائے تھی کہ برطانیہ کے قومی بینک کا جس شخص کو گورنر لگایا گیا وہ کینیڈا کے شہری ہے لیکن حکومت انہیں اصلاحات کے لیے لائی، اگر ہم اپنی ریاست کو ہر معاملے میں عدم تحفظ کاشکار کریں گے تو ماہرین کا کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی شہری کہیں عالمی سطح پر اہم عہدے پرپہنچتا ہے تو فخر کی بات ہے اور یہ تب کیا گیا ہے جب آٹھ ماہ میں ایک مقامی ٹیم ناکام ہوچکی ہے۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے کہا کہ قابل لوگوں کو ملک کی خدمت کا حق دینا چاہیے لیکن رضا باقر کے حوالے سے مصر ماڈل سے متعلق تحفظات ہیں، مصر میں آئی ایم ایف نے جو کردار کیا اس سے وہاں کی معیشت بہت پیچھے چلی گئی، اصل بات یہ نہیں کہ کہاں کہاں کام کیا بلکہ یہ بات ہے کہ انہوں نے اب تک کارکردگی کیسی دکھائی۔

تجزیہ کار امبرین قریشی نے کہا کہ آئی ایم ایف سے پہلے بات اس لیے نہیں بڑھ رہی تھی کہ ہم ان کی کچھ شرائط نہیں مان رہے تھے لیکن اب اس معاملے پر پیشرفت ہوگئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی باتیں مان لی ہیں۔

اگر نوازشریف بیرون ملک گئے تو انہیں سیاسی طور پرنقصان ہوگا، عامرضیاء

بیرون ملک علاج کے لیے کیا ہائیکورٹ نوازشریف کے لیے امید کی آخری کرن ہے؟ اس سوال کے جواب میں امبرین قریشی نے کہا کہ نوازشریف ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تازہ درخواست دے سکتے ہیں، انہیں ضمانت میں توسیع مل سکتی ہے لیکن بیرون ملک جانے کی اجازت ملنا مشکل ہے۔

تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بعد اب یہ ہائیکورٹ کا ہی رخ کریں گے لیکن وہاں سے بھی ملنا مشکل ہے۔

تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ اب نوازشریف کی جیل طویل بھی ہوسکتی ہے، ان کے لیے اب امید کی کرن ہائیکورٹ ہی ہے۔ اگر نوازشریف بیرون ملک گئے تو انہیں سیاسی طور پرنقصان ہوگا۔ اگر وہ باہر چلے گئے تو حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی کا موقف تھا کہ  نوازشریف اس ملک کے شہری ہیں، وہ ریلیف کے لیے کسی بھی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں لیکن وہ اس نظام کے لاڈلے ہیں۔ پہلے بھی ان کی توسیع کے لیے وہ تشریح کی گئی جس کی عدالتی نظیرموجود نہیں تھی، ان کے ملکی اور غیرملکی دوست کوششیں کررہے ہیں کہ انہیں باہر لے جائیں۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے کہا کہ نوازشریف کے پاس آخری راستہ ہائیکورٹ ہی ہے اور وہ ہر صورت چاہیں گے کہ انہیں وہاں سے ریلیف ملے۔

سیاسی جماعتوں میں تجربے کو نہیں بلکہ سیاسی خاندان کو دیکھا جاتا ہے،عاصمہ ودود

کیا مریم نواز کو نائب صدر کے عہدے پر فائز کرکے ن لیگ قانون شکنی کی مرتکب ہوئی ہےکے جواب میں امبرین قریشی نے کہا کہ مریم نوازکی سزا معطل ہے انہیں بری نہیں کیا گیا ہے، دنیا بھر میں سزا یافتہ افراد عہدے لینے سے بچتے ہیں، یہ تحفظات صرف تحریک انصاف کے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ہوں گے۔

تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ مسلم لیگ کی بنیاد خاندان ہے، اس خاندان کو ہمیشہ سے بہت اہمیت ملی، بے شک مریم نواز نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر منوالیا ہے لیکن پارٹی کو اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

تجزیہ کارعامر ضیاء نے کہا کہ سیاست میں کوئی اصول یا اخلاق نہیں اپنایا جاتا، نوازشریف کے اندر اداروں سے متعلق جو ناراضی تھی وہ مریم نواز کو منتقل ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ کا مؤقف ہے کہ سزا معطل ہے جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ فیصلہ موجود ہے تو عہدہ نہیں رکھا جاسکتا تاہم بات جب عدلیہ کے پاس جائے گی تو وہاں سے تشریح ہوگی۔

اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ حتمی رائے تو قانون ہی دے سکتا ہے یہ پارٹی سے زیادہ شہباز شریف کے خلاف سازش ہے، پہلے انہوں نے شہبازشریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیا اور اب سارے وہ لوگ سامنے آگئے ہیں جو ٹکراؤ کے حق میں ہیں۔ جو پارٹی نوازشریف کو جلوس کی شکل میں جیل چھوڑنے جارہی ہے اس سے اخلاقیات کی توقع رکھنا مشکل ہے۔

عاصمہ ودود کی رائے تھی کہ سیاسی جماعتوں میں تجربے کو نہیں بلکہ سیاسی خاندان کو دیکھا جاتا ہے، یہ جمہوریت نہیں بلکہ شاہی خاندان ہے جو ہم پر حکمرانی کرتا ہے۔ اخلاق کا تقاضا تھا کہ پارٹی مریم نواز کو عہدہ دینے سے خود اجتناب کرتی۔


متعلقہ خبریں