رمضان المبارک اور مہنگائی کا جن

۔—فائل فوٹو۔


کچھ روز قبل وزیر اعظم کی زیر صدارت مہنگائی میں کمی پر خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ، مشیر تجارت، مشیر خزانہ، صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور متعلقہ وفاقی و صوبائی وزرا شریک ہوئے۔

انہوں نے وزیر اعظم کو رمضان سے متعلق حکمت عملی پر بریفنگ دیتے ہوئے چینی کی 55 روپے فی کلو فراہمی اور 10 کلو آٹے کی 290 روپے جبکہ ضروری اشیا کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔

وزیر اعظم نے رمضان میں اشیاء خوردنوش کی مقررہ نرخوں پر فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو تمام اشیاء مقرر شدہ ریٹ پر دستیاب کی جائیں اور انتظامیہ کے افسران فیلڈ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔

وزیر اعظم نے منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کا حکم دیا جبکہ سحر و افطار میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا۔

حسب روایت اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا نظر آرہا ہے، ایسے میں وزیر اعظم کی جانب سے کئے جانے والے اعلان کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہر سال ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیائے خوردونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں عام آدمی کو پورے ماہ پریشانی میں مبتلا کئے رکھتی ہیں۔ اس سال دودھ تو رمضان سے قبل ہی مہنگا کردیا گیا جبکہ بتدریج چینی، آٹے اور دالوں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں۔ اب پیٹرول کی قیمت 108 کرنے کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں جس کے بعد مہنگائی میں یک لخت کئی فیصد اضافہ متوقع ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ جاتاہے، منافع خور سرگرم ہو جاتے ہیں، دالیں، چینی، مرغی، چھوٹا اور بڑا گوشت، چائے کی پتی، دودھ، انڈے، مشروبات ،چاول، گھی، بیسن، آٹا، سبزی، پھل اور ہر قسم کی ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: رمضان میں کیا کھائیں؟

دکاندار شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور ایسے میں حکومتی سطح پر قائم کی گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں خوفناک اضافہ گڈ گورننس پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسا ہر سال ہوتا ہے۔وزیر اعظم کی ہدایات اپنی جگہ لیکن ہر سال کی طرح اس سال بھی مہنگائی میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی جارہی ہے ۔

چھوٹی سی بات یہ ہے کہ کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت رسول ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کھجور سے روزہ کھولنے کو فوقیت دیتا ہے۔ اس لحاظ سے اصولاً رمضان المبارک میں کھجوروں کے نرخوں میں نمایاں کمی کی جانی چاہئے لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ کھجور کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کردیا جاتا ہے ۔

ہر سال رمضان المبارک میں انتظامیہ کی جانب سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی یقین دہانی کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس سال دیگر صوبوں کی طرح سندھ حکومت کی جانب سے بھی رمضان میں مہنگائی پر قابو پانے کیلئے پلان تیار کئے جانے کی نوید سنائی گئی اور بتایا گیا ہے کہ بیوپاریوں کو ماہ رمضان میں روزمرہ کی اشیاء مہنگی نہیں کرنے دی جائیں گی۔ صوبائی وزیر برائے پرائسسز اسماعیل راہو نے رمضان میں مہنگی اشیاء فروخت کرنے والوں کےخلاف کارروائی کرنے اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کا عندیہ دیا ہے ۔اس ضمن میں ڈی سی آفسز میں شکایتی سیل قائم ہوں گے۔ کنٹرول پرائس کمیٹی کے افسران کو مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے، افسران موقع پر ہی گراں فروشوں کےخلاف کارروائی کریں گے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں ”پرائس کنٹرول “کے نام پر قائم کمیٹیاں انتہائی غیر فعال ہیں، رمضان المبارک میں یہ کمیٹیاں اچانک فعال ہوتی ہیں، ابتدائی چند روز تک ان کی جانب سے چھاپوں کی کارروائیوں کی اطلاعات ملتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ معاملات ”ٹھنڈے “پڑ جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بڑھی ہوئی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کی چیکنگ محض دکھاوے اور عوامی تسلی کیلئے کی جاتی ہے ۔حیرت انگیز طور پر پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے قبل ہی ”غیب “سے دکانداروں اور ریڑھی والوں کو چھاپے کی اطلاع ہوجاتی ہے اور وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل اشیاء سرکاری قیمتوں پر فروخت کرنے لگتے ہیں اور جیسے ہی مجسٹریٹ اپنی ٹیم کے ہمراہ موقع سے رخصت ہوتے ہیں دوبارہ من مانی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔اس سال اسی سلسلے کے جاری رہنے کی توقع ہے اور یہ قوی اُمید بھی ہے کہ انتظامیہ کی تمام تر دعوے داریوں کے باوجود عوام کو مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔

اگر عوام کو حقیقی ریلیف دینا مقصود ہے تو پھر ایسا مستقل اور انتہائی موثر نظام ہونا چاہئے جس سے کوئی بھی قیمتوں کے تعین میں من مانی نہ کرسکے۔ رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان سے عوام کو بچانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس سلسلے میں مضبوط اقدامات کئے جانے انتہائی ضروری ہیں۔اس ضمن میں قائم پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں ذمہ دار افراد کی تعیناتی ضروری ہے جو منافع خوروں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔حکومت کی جانب سے دی جانے والی لاکھوں روپے کی رمضان سبسڈی کا چیک اینڈ بیلنس کیا جانا چاہئے ۔روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاءپر ٹیکس کی چھوٹ ہونی چاہیے اگر حکومت واقعی مہنگائی پر قابو پانا چاہتی ہے تو اسے ذخیرہ اندوزوں کو لگام ڈالنی ہوگی تاکہ غریب عوام بھی پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں ۔


متعلقہ خبریں