اسلام آباد: مہنگائی کی اونچی اڑان نے شہریوں کے طوطے اڑا دیے


اسلام آباد: ملک میں ہونے والی مہنگائی، پاکستانی روپے کی ناقدری اور ڈالر کی اونچی اڑان کے حقیقی نظارے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مکینوں نے گزشتہ دن اس وقت کیے جب کراچی سے خیبر تک لوگ ایک دوسرے کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی مبارکباد دے رہے تھے۔

حسب معمول و روایت ضلعی انتظامیہ کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ناجائز منافع خوروں نے دل بھر کے ’مسلمانوں‘ کو لوٹا اور دور دور تک کوئی پرسان حال نہ ملا۔

افسوسناک امر ہے کہ صورتحال کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد و راولپنڈی سمیت اطراف کے لوگوں کو لوٹنے میں وہ کمپنیاں بھی پیچھے نہ رہیں جو آن لائن ٹیکسی سروس فراہم کرتی ہیں۔

آن لائن ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں نے لوگوں کی مجبوریوں اور کچھ مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ روز عصر کے بعد سے ہر سروس پر ’پیک فیکٹر‘ کے نام سے لوگوں کو اندھا دھند لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ کمپنیوں کی خوش قسمتی اور عوام الناس کی بدقسمتی کہ لوٹ مار کرنے والوں کی یہاں بھی گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

رمضان المبارک میں پکنے والے خصوصی پکوانوں کی تیاری کے حوالے سے ملنے والی خوشیاں اس وقت لوگوں کو قدرے ’پھیکی‘ محسوس ہونا شروع ہوئیں جب انہیں اچانک گوشت، گھی، خوردنی تیل، آٹا، پیاز، چکن، لہسن، ادرک اور پھلوں کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے کو ملا۔

یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ رجب اور شعبان کے مقدس مہینوں میں پہلے ہی ناجائز منافع خوروں نے  گوشت، گھی، کھانے پکانے کا تیل، آٹا، پیاز، چکن اور پھلوں کی قیمتیں میں من مانا اضافہ کردیا تھا۔

صارفین کا اعتراض تھا کہ جب ابھی ایک سے دو ماہ کے دوران پہلے ہی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھائی جا چکی ہیں تو اب ایک مرتبہ پھر قیمتیں بڑھانے کی کیا تک ہے؟ لیکن دکاندار زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ابھی تو پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کے اثرات قیمتوں پر مرتب نہیں ہوئے ہیں۔

اسلام آباد کی مارکیٹ میں بچھیا کا گوشت ہڈی والا 500 سے لے کر 550 روپے فی کلو میں فروخت کیا جارہا ہے جب کہ بچھیا کا گوشت بنا ہڈی والے کی قیمت 600 سے لے کر 650 روپے فی کلو تک وصول کی جارہی ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ بعض وہ ادارے جو آن لائن گوشت گھر تک پہنچاتے ہیں اور یا پھر اپنے مقررہ آؤٹ لیٹس پہ آنے والوں کو گوشت فروخت کرتے ہیں وہ مزید 100 سے 200 روپے زائد وصول کررہے ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

بکرے کا گوشت اسلام آباد میں پہلے ہی 900 سے 950 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا اب اس کی قمیت 950 سے 1000 روپے فی کلو وصول کی جارہی ہے۔ قصاب اس مہنگائی کو ہول سیل مارکیٹ میں ہونے والے اضافے سے تعبیر کرتے ہیں۔

رجب اور شعبان کے مہینوں میں بھی قصابوں نے بکرے کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زندہ مرغی گزشتہ روز دوپہر تین بجے تک 175 روپے فی کلوفروخت ہورہی تھی لیکن مغرب کے وقت آبپارہ مارکیٹ میں اس کی قیمت 195 سے 200 روپے فی کلو ہو چکی تھی جب کہ اکثر دکانوں پر مرغی فروخت کے لیے موجود ہی نہیں تھی۔

آبپارہ مارکیٹ پہ عشا کی آذان کے وقت جن دکانوں پر زندہ مرغی موجود تھی وہاں وہ 210 سے 215 روپے فی کلو فروخت ہورہی تھی۔

ایسی ہی صورتحال مرغی کے گوشت کی تھی۔ دکاندار اس کا گوشت 360 روپے سے لے کر 390 روپے فی کلو تک  میں فروخت کررہے تھے۔

ڈبل روٹی تیار کرنے والی بیکریوں اور کارخانوں نے بھی اس کی قیمت میں آٹھ سے 14 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ اس ضمن میں البتہ ڈبل روٹی بنانے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے قیمت میں اضافہ تقریباً پانچ سال بعد کیا ہے۔

جڑواں شہروں میں بیکری، چھولے چاٹ، گول گپے اور برگر کا کام کرنے والوں نے بھی موقع غنیمت جان کر فروخت ہونے والی متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے جب کہ اکثر مقامات پر سموسہ اور رول بھی مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے۔

ڈبل روٹی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے چھوٹی ڈبل روٹی کی قیمت میں تین سے سات روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

درمیانی ڈبل روٹی کی قیمت میں پانچ سے نو روپے اور بڑی ڈبل روٹی کی قیمت میں دس روپے تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

درآمد شدہ مکھن اور دیسی گھی کی قیمتوں میں اضافہ تو پہلے ہی ہو چکا تھا لیکن اب ان کی قمیت مزید بڑھا دی گئی ہے۔ دکاندار اس کی بنیادی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کو دیتے ہیں۔

بیرون ملک سے درآمد شدہ مکھن اور گھی کے  ساتھ ساتھ اب ملکی سطح پر بھی تیار ہونے والے مکھن اور گھی کی قیمتوں میں 500 روپے فی کلو تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

افسوسناک امر ہے کہ اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں کیا جانے والا من مانا اضافہ تھوک اور پرچون دونوں سطح پر باقاعدہ دن دیہاڑے وصول کیا جارہا ہے اور کوئی روک تھام والا نہیں ہے۔

اسلام آباد کی سبزی منڈی میں پیاز 350 روپے فی دھڑی، ٹماٹر 490 روپے فی دھڑی، لہسن دیسی 240 روپے فی کلو، ادرک 230 روپے فی کلو، ہرا مرچ 60 روپے فی پاؤ، ہرا دھنیا 30 روپے فی گڈی، پودینہ 20 روپے فی گڈی، بھنڈی 120 سے 130 روپے فی کلو، پھول گوبھی 100 سے 120 روپے فی کلو، پالک 30 روپے فی گڈی، لیموں 400 روپے سے 500 روپے فی کلو، لوکی 80 روپے سے لے کر 110 روپے فی کلو، تروئی (دو اقسام) 70 روپے سے لے کر 120 روپے تک میں دستیاب ہے۔

شملہ مرچ 110 روپے سے لے کر 130 روپے فی کلو، بند گوبھی 80 روپے سے لے کر 100 روپے اورکریلا 80 روپے سے لے کر 90 روپے فی کلو تک میں فروخت ہو رہا ہے۔

کھجور 250 روپے فی کلو سے لے کر 500 روپے فی کلو تک میں خریدی جا رہی ہے جب کہ وہ کھجوریں جن میں گٹھلی نکال کر خشک میوہ جات ڈالے جاتے ہیں وہ مزید مہنگی ہیں۔

لوکاٹ اس وقت 125 روپے سے لے کر 150 روپے فی کلو تک میں فروخت کیا جارہا ہے جب کہ تربوزہ 30 روپے سے لے کر 60 روپے فی کلو تک میں دستیاب ہے۔ کیلا 130 روپے فی درجن سے لے کر 280 روپے فی درجن تک میں فروخت ہورہا ہے۔

درج بالا اعداد و شمار اس بات کے غماز ہیں کہ سرکاری سطح پر اشیائے خورد ونوش کی جو قیمتیں مقرر کی گئی ہیں ان پر قطعی عمل نہیں ہورہا ہے بلکہ ہرچیز کے نرخ من مانے وصول کیے جارہے ہیں۔

اسی طرح اسٹرابری، خربوزہ، کینو، پپیتا، چیکو، گنڈیری، شکر قندی، امرود، سیب، مالٹا اور کیوی کے نرخ بھی سرکاری فہرست میں درج نرخوں سے مماثلت نہیں رکھتے ہیں۔ دکانداروں کا اعلانیہ مؤقف ہے کہ وہ اسی نرخ پر اشیا فروخت کریں گے جو انہوں نے مقرر کیے ہیں وگرنہ جا کرسرکار سے خرید لو۔


متعلقہ خبریں