اسلام آباد: واشنگٹن اور تہران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں گزشتہ روز اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب امریکہ نے ایران کے دھات کے شعبوں پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ یہ اعلان وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں کیا گیا۔
عرب میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے تیل کے علاوہ آمدنی کے بڑے ذریعے کو نئی پابندیوں کے ذریعے ہدف بنایا گیا ہے۔ ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیوں کے اطلاق کے علاوہ امریکہ کی جانب سے توانائی، جہاز سازی، جہازرانی اوربینکنگ سیکٹرز بھی تعزیرات کی زد میں ہیں۔
امریکہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایران کو متنبیہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنا رویہ اور طریقہ کار تبدیل نہیں کرے گا تو اسے مزید تعزیری اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے لوہے، اسٹیل، ایلومینیم اور تانبے کے شعبوں کو پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کی برآمدات سے کل ایرانی معیشت کا دس فیصد حاصل ہوتا ہے۔
مؤقر اسرائیلی اخبار ’ہیرٹز‘ نے گزشتہ روز عالمی خبررساں ایجنسی کے توسط سے خبر شائع کی تھی کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے واضح کیا ہے کہ اگر عالمی طاقتوں نے2015 کے معاہدے پر عمل دارآمد نہ کیا تو ان کا ملک افزودہ یورینیم اور بھاری پانی کے ذخیرے پر عائد پابندیوں پر عمل درآمد منسو خ کردے گا۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق یہ بات عالمی طاقتوں کے سفارتکاروں کو بھیجے جانے والے ایک مکتوب میں کہی گئی تھی۔
وی او اے کے مطابق ایرانی صدر حسن روحانی نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ دستخط کرنے والے دیگر ممالک نے چونکہ معاہدے کی ضروری پاسداری نہیں کی اس لیے ایرانی تیل اور بنکاری کے شعبوں میں امریکی پابندیاں لاگو ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق ایران کے صدر نے دیگر ممالک کو اس ضمن میں 60 دن کی مہلت دی ہے جس کے بعد ایران یورینیم کی اعلیٰ سطح کی افزودگی شروع کردے گا لیکن ساتھ ہی حسن روحانی نے واضح کیا ہے کہ اگر دیگر ممالک ایران کا ساتھ دیتے ہیں تو ان کی حکومت معاہدے کی پاسداری جاری رکھے گی۔
On May 8 2018, US withdrew from #JCPOA, violated #UNSCR 2231 & pressured others—incl #E3—to do the same
After a year of patience, Iran stops measures that US has made impossible to continue
Our action is within the terms of JCPOA.
EU/E3+2 has a narrowing window to reverse this.— Javad Zarif (@JZarif) May 8, 2019
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پرجاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے لیے امریکی اقدامات کی روشنی میں ناممکن ہوگیا ہے کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کے پاس اسے سہارا دینے کی بہت زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی اسٹیل اور کان کنی کی صنعتوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان اس وقت کیا ہے جب ایران کی جانب سے 2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت اپنے جوہری پروگرام پر عاید کردہ بعض قدغنوں سے جزوی دستبردار ی کا کہا گیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ میں اس کو توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنے کے لیے ایک زیادہ جامع سمجھوے کیے جاسکیں۔
عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے قومی ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی تقریر میں صدرحسن روحانی نے کہا تھا کہ سمجھوتے پر دستخط کرنے والے پانچ ممالک جن میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، چین اور روس شامل ہیں، کے پاس اب صرف 60 دن باقی ہیں۔
ایرانی صدر نے واضح کیا تھا کہ اس عرصے میں ان ممالک کو ایران کے تیل اور بنکاری کے شعبے کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس سے قبل کہ یہ ممالک کسی اقدام کا اعلان کرتے امریکہ نے اس سے قبل ہی ایران کی اسٹیل اور کان کنی کی صنعتوں پر پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کردیا۔
Substantive consultations in Russia. Convergence of views including:
JCPOA is in critical condition bec of US – and Europe’s failure to uphold its obligations. EU/E3 must step up for JCPOA to survive.
Iran’s choice is constructive engagement with credible *and* relevant actors pic.twitter.com/sNDlIeNBcu
— Javad Zarif (@JZarif) May 8, 2019
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماسکو کا دورہ کرنے والے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کی دیگر چھ عالمی طاقتوں سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے رضا کارانہ طور پر جزوی دستبرداری قانونی ہے۔
روسی خبررساں ایجنسی کے مطابق محمد جواد ظریف نے ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لیورو سے بات چیت میں جوہری سمجھوتے سے جزوی دستبرداری اور عالمی طاقتوں کے ردعمل پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نےدعوی کیا کہ ایران کے اقدامات سے جوہری سمجھوتے کی اصل شرائط کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔
روسی خبررساں ایجنسی ’تاس‘ کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسیکوف نے اس ضمن میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی فیصلے کا ذمہ دار دراصل امریکہ ہے کیونکہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے ایران جوہری سمجھوتے کی بعض پابندیوں سے دستبردار ہونے پہ مجبور ہوا ہے۔
ترجمان کریملن دمتری پیسیکوف نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن پہلے ہی متعدد مرتبہ بلا سوچے سمجھے اقدامات کے مضمرات سے آگاہ کرچکے ہیں۔
کریملن کے ترجمان نے اس ضمن میں کہا کہ گزشتہ سال امریکہ نے جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پرعلیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اب ہم سب کیے گئے اس فیصلے کے مضمرات دیکھ رہے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جس وقت کریملن ترجمان دمتری پیسیکوف ذرائع ابلاغ سے بات چیت کررہے تھے عین اسی وقت ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کی اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات ہورہی تھی جس میں روس کے وزیرخارجہ نے کہا کہ روس جوہری سمجھوتے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی وزیرخارجہ سرگئی لیورو نے ایرانی وزیرسے ملاقات کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ روس کے سفارتکار سمجھوتے کو بچانے کے لیے یورپی حکام سے پس پردہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر دیگر ممالک جوہری سمجھوتے سے جزوی دستبرداری پر ایران کے خلاف پابندیاں عاید کرتے ہیں تو کیا روس بھی ان کا ساتھ دے گا؟ تو اس کے جواب میں سرگئی لیورو نے کہا کہ اس وقت ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ اور باریک بینی سے صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔
امریکہ کی جانب سے جب دو دن قبل خلیج فارس میں بحری بیڑا بھیجنے جیسا قدم اٹھایا گیا تھا تو اس کے فوری بعد تہران کی جانب سے یہ بات کہی گئی تھی کہ اس کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف آئندہ دس دن میں روس اور شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔
تہران کی جانب سے اچانک روس اور شمالی کوریا کے دورے کے اعلان کو عالمی سیاسی مبصرین نے پیغام رسانی سے تعبیر کیا تھا کہ واشنگٹن کے اقدامات پر جواب آں غزل ہے۔