کیا سموسے کی قیمت بھی عدالت نے طے کرنی ہے؟چیف جسٹس پاکستان

سرکاری اسکول میں اعلی تعلیم ، فری یونیفارم اور دودھ کا گلاس دیا جائے، چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج ایک بار پھر سموسوں کی گونج سنائی دی ۔ چیف جسٹس پاکستان نے اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سموسوں کی قیمتوں کا تذکرہ چھیڑدیا۔

چیف جسٹس نے کہاسموسوں کی قیمت کا بھی ایک مقدمہ آیاتھا،کیا سموسے کی قیمت بھی عدالت نے طے کرنی ہے؟ آپ چاہتے ہیں عدالت نجی اسکولوں کی فیس پر 5فیصد اضافے کی پابندی ہٹا کر کھلی چھٹی دے دے؟دیکھنا ہوگا کہ عدالت نے کہاں حد لگانی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا فیسیں مقرر کرنا عدالتوں کا کام نہیں۔عدالتوں نے یہ دیکھنا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟دیکھیں گہ کہ نجی اسکولوں کے معاملات آئین و قانون کے مطابق ہیں؟ بنیادی حقوق کا تعلق عوام سے ہوتا ہے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ اچھے استاد دیں، میں اچھے طالب علم دوں گا۔ اگر آپ نے سرمایہ کاری کرنی ہے تو اساتذہ پر کریں۔ اساتذہ اچھے ہونگے تو ہی اچھے طالب علم ہونگے۔

نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس  کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

نجی اسکول کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 2002 میں بھارتی سپریم کورٹ کے 11 رکنی بنچ نے اس سے مماثل کیس کا فیصلہ سنایا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نجی اسکول مناسب منافع کما سکتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ان بھارتی مقدمات میں حکومت کی جانب سے فیس اسٹرکچر دیا گیا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بھارتی مقدمات کو کس پیرائے میں سنا گیا اور کیا ریگولیشن کی گئی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ان مقدمات کی بنیاد پر ہم کسی غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ فیس اضافے میں حد لگانا کیسے بلاجواز ہے؟

نجی اسکول کے وکیل نے کہا پنجاب کا قانون ریونیو سے متعلق مسئلے پر بات ہی نہیں کرتا۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریگولیشن میں لفظ منافع بخش کا استعمال نہیں ہوا۔

نجی اسکول کے وکیل نے  دوران سماعت بلیک لاء ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا۔ وکیل نے کہا کہ پنجاب کا قانون منافع پر بات نہیں کرتا ریونیو پر حد لگاتا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کا قانون سندھ کے قانون سے بالکل مختلف ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا 5 فیصد سالانہ اضافے کی حد بنیادی حقوق کے خلاف کیسے ہے؟نجی اسکولوں والے  کہتے ہیں 5 فیصد سالانہ اضافے کی حد نہ لگائی جائے۔ ٹیکس بچانے کے لیے اسکول اپنے اخراجات زیادہ بتاتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس چوری جرم ہے۔ ٹیکس بچانے کی مینیجمنٹ وکیل کا مشورہ ہوتا ہے۔اسکول اپنی مرضی کے مطابق نفع کا تناسب رکھ سکتے ہیں۔ہمارے سامنے سوال قانونی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 5 فیصد سالانہ فیس میں اضافے پر قدغن لگ سکتی ہے؟

انہوں نے کہا ٹیوشن فیس کے علاوہ پیسہ کمانے کے لیے دوسرے راستے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ جیسے ملک کا صدر بننے کے لیے 45 سال عمر کی اہلیت ہے،ملک کا صدربننے کے لیے اہلیت 44 سال یا 46 کیوں نہیں ہے؟عمر کے تعین میں قانون سازوں کی اپنی بصیرت ہے۔ فیس میں سالانہ 5 فیصد تک اضافہ کی حد میں قانون سازوں کی بصیرت ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا برطانیہ میں وکلاء کی فیس بھی مقرر ہوتی ہے۔لاء سوسائٹی ہر مرحلے پر وکلاء کی فیس مقرر کرتی ہے۔

نجی اسکولوں کے وکیل نے کہا سالانہ 5 فیصد اضافے کی پابندی کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے: مہنگی تعلیم نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے، چیف جسٹس پاکستان

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کیا عدالت قانون سازوں کو ہدایات دے سکتی ہے؟ جمہوری معاشرے میں قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار قانون سازوں کا ہے۔

نجی اسکول کے وکیل نے کہا 5 فیصد اضافے کی حد بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ 5 فیصد کی حد لگانے سے تعلیم کا معیار نیچے آئے گا اورنجی اسکولنگ سسٹم متاثر ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کیا عدالت نجی سکولوں کے وسائل کا جائزہ لے کر فیس مقرر کرے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا انتظامیہ ناکام ہوئی تو یہ قوانین بنائے گئے۔

والدین کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ میرے کیس میں نجی اسکول نے عدالتی حکم کے بعد فیس بڑھا کر کم کردی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میں اب بھی دعوے سے کہتا ہوں کسی سکول نے منافع سے ایک آنہ کم نہیں کیا ہوگا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا اگر کوئی حال اور مستقبل میں افراط زر کی پیشگوئی کی بنیاد پر فیس میں اضافے کا کہے تو کیا یہ ٹھیک ہے؟

عدالت کو بتایا گیا کہ ہیڈ اسٹارٹ اسکول مالکان نے معافی مانگی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا معافی نامہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔عدالت نے معافی نامہ منظور کرتے ہوئے نوٹس واپس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں ہمیں نہیں ہونا چاہیے۔

عدالت نے پشاور، اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے مقدمے متعلقہ ہائیکورٹس کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ متعلقہ ہائیکورٹس ان مقدمات پر کارروائی کریں۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔


متعلقہ خبریں